اسلام آباد (فخر درانی) کیا یہ محض اتفاق ہے یا کسی مربوط منصوبے کا حصہ ہے کہ اسرائیلی میڈیا عمران خان کے حق میں کالم شائع کر رہا ہے؟
عمران خان کی رہائی کے حق میں لکھے جانے والے ان آرٹیکلز کے پیچھے کیا وجہ ہے اور انہیں اسرائیل کے ہمدرد کے طور پر کیوں پیش کیا جا رہا ہے؟
دانشوروں، آزاد مبصرین اور پی ٹی آئی مخالف سیاست دانوں کی ایک قابل ذکر تعداد کا خیال ہے کہ اسرائیلی میڈیا میں عمران خان کی حمایت میں جاری مہم کا مقصد مغربی ممالک بالخصوص امریکا اور برطانیہ پر دباؤ ڈالنا ہے۔
ایسے واقعات کا سلسلہ جاری ہے جہاں مغربی ممالک نے عمران خان کی حمایت کا اظہار کیا ہے، جن میں امریکی ایوان نمائندگان میں پاکستان مخالف قرارداد کی منظوری اور ہاؤس آف لارڈز کے کمیٹی روم میں عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرنے کیلئے برطانوی ارکان پارلیمنٹ کا اجلاس شامل ہے۔
آزاد مبصرین حیران ہیں کہ عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں عمران حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان نے امریکا پر حکومت کی تبدیلی کا الزام لگاتے ہوئے دعویٰ کیا تھا امریکا اُن کی حکومت سے ناراض تھا اسلئے امریکی انتظامیہ نے ان کی حکومت گرائی۔ ان الزامات کے باوجود، امریکی ایوان نمائندگان نے عمران خان کیلئے حمایت کا اظہار کیا۔ اس صورتحال پر کئی لوگ حیران ہیں کہ ایسے الزامات کے بعد امریکا ان کی حمایت کیوں کرے گا۔
عمران خان کی حمایت میں مغربی حکومتوں کی کوششوں کے علاوہ اب اسرائیلی میڈیا بھی ان کی پشت پناہی میں شامل ہو گیا ہے۔ اس سے قبل، ٹائمز آف اسرائیل نے دعویٰ کیا تھا کہ عمران خان نے اپنی سیاسی مہم میں مخالفت کے باوجود اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا اشارہ دیا۔
اب، دی یروشلم پوسٹ نے مضمون شائع کیا ہے جس میں عمران خان کو اسرائیل اور پاکستان کے درمیان تعلقات قائم کرنے کا ایک مضبوط حامی قرار دیا گیا ہے۔ یروشلم پوسٹ کے آرٹیکل میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں موجودہ سیاسی قیادت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بنانے میں بڑی رکاوٹ ہیں، اور تجویز پیش کی ہے کہ کسی بھی پیشرفت کیلئے ان قوتوں کو ہٹانے کی ضرورت ہوگی۔
آرٹیکل میں زور دے کر کہا گیا ہے کہ عمران خان کا اثر و رسوخ اسرائیل کے حوالے سے رائے عامہ اور فوجی پالیسی کو تبدیل کر سکتا ہے۔ 2016ء میں، عمران خان نے لندن کے میئر کے انتخاب میں اپنے سابق سالے زیک گولڈ سمتھ کی حمایت کی تھی۔
زیک لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے پاکستانی نژاد مسلم رہنما صادق خان کیخلاف انتخاب لڑ رہا تھا اور ایک نسل پرستانہ، مسلم مخالف مہم کی قیادت کر رہا تھا۔ اس کے باوجود عمران خان نے کئی ٹویٹس کے ذریعے لندن والوں پر زور دیا کہ وہ صادق خان کے مقابلے میں زیک گولڈ سمتھ کی حمایت کریں اور انہیں ووٹ دیں۔
ان آرٹیکلز میں کیے گئے دعووں یا زیک گولڈ سمتھ کی حمایت کے باوجود عمران خان نے کبھی بھی کھلے عام اسرائیل کی حمایت نہیں کی۔ درحقیقت، حکومت میں رہتے ہوئے، عمران خان نے واضح کیا تھا کہ جب تک وہ وزیراعظم ہیں، پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔ انہوں نے اپنے پورے سیاسی کیریئر میں اپنے عوامی بیانات میں مسلسل اسرائیل کی مخالفت کی۔
2020ء میں، جب متحدہ عرب امارات نے ابراہم معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مدد سے اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات قائم کیے تو یہ افواہیں تھیں کہ سعودی عرب اور پاکستان اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کیلئے پیشرفت کر سکتے ہیں۔
یروشلم پوسٹ کا مضمون بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔ آرٹیکل میں لکھا ہے کہ اگرچہ انہوں نے طویل عرصے سے فلسطینیوں کی حمایت کے حوالے سے ایک پالیسی پوزیشن برقرار رکھی ہے لیکن حالیہ برسوں کے دوران سابق وزیراعظم عمران خان نے اسرائیلی پالیسیوں کیخلاف سخت بیانات کے باوجود اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی خواہش کا بھی اشارہ دیا ہے۔
سابق وزیراعظم نے اس بات کا اشارہ بھی دیا ہے کہ پاکستان کو چاہئے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کا راستہ خود اختیار کرے۔ یہ بالخصوص اس وقت کی اہم بات تھی جب باقی مسلم دنیا نے اپنے مفادات کے پیش نظر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا شروع کر دیا تھا۔
آرٹیکل میں لکھا ہے کہ اگرچہ انہوں نے طویل عرصے سے فلسطینیوں کی حمایت کے حوالے سے ایک پالیسی پوزیشن برقرار رکھی ہے لیکن حالیہ برسوں کے دوران سابق وزیراعظم عمران خان نے اسرائیلی پالیسیوں کیخلاف سخت بیانات کے باوجود اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی خواہش کا بھی اشارہ دیا ہے۔ سابق وزیراعظم نے اس بات کا اشارہ بھی دیا ہے کہ پاکستان کو چاہئے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کا راستہ خود اختیار کرے۔ یہ بالخصوص اس وقت کی اہم بات تھی جب باقی مسلم دنیا نے اپنے مفادات کے پیش نظر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا شروع کر دیا تھا۔
آرٹیکل میں مزید لکھا ہے کہ عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے ملک کے حالیہ انتخابات میں قومی اسمبلی کی 93؍ نشستیں حاصل کی ہیں، ان کا اثر رسوخ یا پھر ان کے جیسے کسی اور ہم خیال کا ابھر کر سامنے آنا ان مواقعوں کا از سر نو جائزہ لینے کا موقع فراہم کر سکتا ہے کہ پاکستان کس حد تک اسرائیل کیخلاف اپنی سوچ پر نظر ثانی کر سکتا ہے، خصوصاً اس وقت جب پاکستان گہرے معاشی بحران میں پھنسا ہے۔
پی ٹی آئی قیادت اپنی تمام تر امیدیں امریکی صدارتی انتخابات پر لگائے بیٹھی ہے۔ پارٹی قیادت سمجھتی ہے کہ اگر ٹرمپ جیت گئے تو عمران خان کو مزید مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، ٹرمپ نہ صرف حکومتِ پاکستان پر عمران خان کی رہائی کیلئے دباؤ ڈالیں گے بلکہ ان کی اقتدار میں واپسی میں بھی مدد کریں گے۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے دوران میڈیا رپورٹس میں عمران خان کے معاون خصوصی زلفی بخاری پر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر کے ساتھ قریبی تعلقات کا الزام لگایا گیا تھا۔ عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان نے بھی الزام عائد کیا تھا کہ ذلفی بخاری نیویارک میں روزویلٹ ہوٹل فروخت کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ تاہم، ذلفی بخاری نے برطانیہ کی ایک عدالت میں ریحام کیخلاف قانونی کارروائی کی اور ہتک عزت کا مقدمہ جیت لیا۔
یروشلم پوسٹ کے حالیہ مضمون کے جواب میں، پی ٹی آئی نے اس آرٹیکل کو بکواس قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ان آرٹیکلز کا مقصد عمران خان کو بطور اسرائیل نواز سیاست دان پیش کرکے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے، حالانکہ وہ مسلسل اسرائیل مخالف رہے ہیں۔ تاہم، عمران خان کے سیاسی مخالفین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اکثر اس صورتحال سے انکار کرتی رہی ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ ان آرٹیکلز میں کیے جانے والے دعوے درست اور اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ عمران خان کے دور میں کیا کچھ ہوتا تھا۔