اسلام آباد( رپورٹ :،رانامسعود حسین)سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج ، جسٹس سید منصور علی شاہ نے ایک خط لکھ کر سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر ) ایکٹ 2023ترمیمی آرڈیننس2024 کے تحت تشکیل دی گئی نئی تین رکنی کمیٹی کے اجلاس میں بطور ممبر جج بیٹھنے سے معذرت کرتے ہوئے کہا جسٹس منیب اختر کو بغیر وجہ کے ہٹانا غیر جمہوری رویہ ہے، اپنی مرضی کا ممبر کمیٹی میں شامل کرکے من مرضی کی گئی جو غیر جمہوری رویہ اور ون مین شو ہے، جبکہ آرٹیکل 63اے نظرثانی کیس کی چیف جسٹس کی سربراہی میں 5رکنی بینچ 30ستمبرکو سماعت کریگا،آڈیو لیکس کیس کی سماعت کیلئے بنچ تشکیل دیدیا گیا ہے، دوسری جانب ذرائع کے مطابق جسٹس سید منصور علی شاہ کی جانب سے کمیٹی کے اجلاس کے بائیکاٹ کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں اجلاس منعقد ہوا ،جس میں جسٹس امین الدین خان نے شرکت کی اور دو اہم مقدمات کو سماعت کیلئے مقر رکرنے کا فیصلہ کیا گیا ،جسٹس سید منصور علی شاہ نے پیر کو کمیٹی کے چیئرمین ، کی سیکرٹری/رجسٹرار جزیلہ اسلم کے نام مکتوب میں موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ( پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ میں رد و بدل یا تو فل کورٹ بنچ یا فل کورٹ اجلاس کے ذریعے ہی ممکن ہے،یا پھر جسٹس منیب اختر کو کمیٹی میں دوبارہ شامل کیا جائے ،میں کمیٹی کے سربراہ ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے (چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل ) سابق کمیٹی کی بحالی تک اجلاس میں شرکت نہیں کر سکتا ، فاضل جج نے سیکرٹری کو اس خط کو کمیٹی کے اجلاس کے منٹس(مختصر روئیداد) کا حصہ بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے مزید لکھا کہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر )ایکٹ 2023ترمیمی آرڈیننس2024 جلد بازی میں لایا گیا اور اسی بناء پراس کے نفاذ کے چند گھنٹوں کے اندر اندر ہی اس آرڈیننس کونوٹیفائی کیا گیااور سابق قانون کے تحت قائم کی گئی کمیٹی کو ختم کرتے ہوئے نئی کمیٹی تشکیل دی گئی جبکہ اس حوالے سے کوئی وجہ بھی بیان نہیں کی گئی ؟نہ ہی یہ بتایا گیا کہ سپریم کورٹ کے دوسرے نمبر پر آنے والے سینئر ترین جج جسٹس منیب اختر کو کمیٹی سے کیوں ہٹا یا گیا ،مکتوب کے مطابق آرڈیننس کے اجراء کے چند ہی گھنٹوں بعد سپریم کورٹ ( پریکٹس اینڈ پروسیجر) کمیٹی کی تشکیل نو کردی گئی تھی حالانکہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر )ایکٹ 2023ترمیمی آرڈیننس2024 آنے کے بعد بھی سپریم کورٹ کے سینئر ترین ججوں کو ہی اس کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کرنا چاہیے تھالیکن کوئی وجہ بتائے بغیر ہی جسٹس منیب اختر کو کمیٹی سے ہٹاتے ہوئے کمیٹی میں اپنی مرضی کے ممبر(جسٹس امین الدین خان) کو شامل کرکے من مرضی کی گئی جو کہ ایک غیر جمہوری رویہ اور صرف اور صرف ون مین شوکے مترادف ہےحالانکہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ2023 سپریم کورٹ مین ون مین شو ہی روکنے کیلئے لایا گیا تھا ، سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر )ایکٹ 2023ترمیمی آرڈیننس2024 کا جائزہ لینے کیلئے سپریم کورٹ کے تمام ججوں پر مشتمل فل کورٹ میٹنگ بلائی جائے۔ جسٹس منصور علی شاہ کا تین صفحات پر مشتمل خط 8 پیراگرافس پر مشتمل ہے، ذرائع کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں اجلاس منعقد ہوا ،اجلاس میں پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ارکان پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلیوں کے اپنی سیاسی پارٹی کی پالیسیوں سے انحراف سے متعلق آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے حوالے سے دائرصدارتی ریفرنس اور آئینی درخواستوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر نظر ثانی کی درخواستیں سماعت کیلئے مقرر نے کا فیصلہ کیا گیا ، ذرائع کے مطابق،اجلاس میں آڈیوز لیک کمیشن کیس بھی سماعت کیلئے مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ،جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس یحی آفریدی، جسٹس امین الدین خان ، جسٹس جمال خان مندوخیل اورجسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل پانچ رکنی لارجربینچ کیس کی سماعت کرے گا ،تاہم اس مقدمہ کی تاریخ سماعت کا فیصلہ آئندہ چند روز میں کیا جائے گا ۔