• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلامی معاشرے میں پڑوسی کے حقوق اور اُس سے حُسنِ سلوک کی تعلیم

مفتی ابوالخیر عارف محمود

پڑوسی وہمسایہ کے حقوق کے بارے میں آج کل بہت کوتاہی دیکھنے میں آرہی ہے، حالاں کہ جناب نبی کریم ﷺ نے اپنے متعدد فرامین وارشادات میں نہ صرف تاکید فرمائی ہے، بلکہ کئی نوعیت کے حقوق کو الگ الگ عنوانات سے بھی بیان فرمایا ہے، ذیل میں ارشاداتِ نبوی ﷺ کی روشنی میں پڑوسی کے حقوق کا ایک سرسری جائزہ لیتے ہیں، تاکہ ان ارشادات کی روشنی میں مسلمان پڑوسی کے حقوق ادا کرنے والے بن جائیں۔

پڑوسی کے حقوق کی تاکیدی وصیت

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جبرائیل(علیہ السلام ) مجھے پڑوسی کے حق کے بارے میں اس قدر وصیت کرتے رہے کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ وہ پڑوسی کو وارث بنادیں گے۔ ایسی ہی ایک روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے۔‘‘ (أخرجہ البخاری فی صحيحہ برقم :۳۳۰۷)

غیر مسلم پڑوسی کو ہدیہ دینا

اسی روایت کے ایک طریق میں آیا ہے کہ حضرت عمرو بن عاص ؓنے اپنے گھر والوں کو حکم دیا کہ وہ غیر مسلم پڑوسی کو ہدیہ بھیجیں، ملاحظہ فرمائیں: ’’عمرو بن شعیب نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ حضرت عبدا للہ بن عمرو ؓ کے گھر میں ایک بکری ذبح کی گئی (پھر جب آئے تو) انہوں نے کہا تم نے ہمارے یہودی ہمسایہ کو ہدیہ بھیجا؟ گھر والوں نے کہا کہ: نہیں، آپ نے فرمایا کہ اس بکری کے گوشت میں سے اسے کچھ بھیجو، اس لیے کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو فر ماتے سنا تھا کہ جبرائیل ہمیشہ مجھے ہمسایہ کے ساتھ احسان کرنے کی وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ اسے وارث کر دیں گے ۔‘‘(أخرجہ أبوداؤد فی سننہ برقم :۵۱۵۲، والترمذی فی سننہ برقم :۱۹۴۳)

پڑوسی کو تکلیف دینے کی ممانعت

رسول اللہ ﷺ نے اللہ اور آخرت پہ ایمان رکھنے والوں کو پڑوسی کو نہ صرف تکلیف دینے سے منع فرمایا ہے، بلکہ اس کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے، ملاحظہ فرمائیں: حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ بھلائی کی بات کہے یا خاموش رہے۔‘‘ (أخرجہ البخاری فی صحيحہ برقم :۶۰۱۸ )

مسلم شریف کی ایک روایت میں آپ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا: ’’ جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کرے۔‘‘( أخرجہ مسلم فی صحيحہ برقم :۱۸۴، ۱۸۵)

اللہ کے نزدیک بہترین پڑوسی

ترمذی شریف کی ایک روایت میں اللہ کے نزدیک بہترین پڑوسی اس شخص کو قرار دیا گیا ہے جو اپنے پڑوسی کے لیے بہتر ہو، : حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے نزدیک سب سے بہتر دوست وہ ہے جو اپنے دوست کے لیے بہتر ہو اور اللہ کے نزدیک سب سے بہتر پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لیے بہتر ہو۔‘‘( أخرجہ الترمذی فی سننہ برقم :۱۹۴۴)

اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت حاصل کرنے کا نسخہ 

طبرانی کی ایک روایت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اگر تم اس بات کو پسند کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول تم سے محبت کریں تو اپنے پڑو سی کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرو ، ملاحظہ کیجیے: حضرت عبدالرحمٰن ابوقراد سلمی ؓسے روایت ہے کہ (ایک دن ) ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے، آپ نے وضو کا پانی طلب فرمایا اور وضو کے پانی والے برتن میں ہاتھ مبارک ڈالا، پھر وضو فرمایا، ہم آپ ﷺ کے وضو کا پانی لے کر (اپنے چہرے اور جسموں پر ) ملنے لگے۔ 

آپ ﷺ نے ارشاد فر مایا: کون سی چیز تمہیں اس کا م پر آمادہ کر رہی ہے؟ ہم نے عرض کیا :اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا: اگر تم اس بات کو پسند کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول تم سے محبت کریں تو جب کوئی امانت تمہارے پاس رکھوائی جائے تو اس کو ادا کرو اور جب بات کرو تو سچ بو لو، اور اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرو۔‘‘ (أخرجہ الطبرانی فی الأوسط برقم :۶۵۱۷)

جس کا پڑوسی بھوکا ہو، وہ کامل مؤمن نہیں

جانتے بوجھتے پڑوسی کو بھوکا رکھ کر خود پیٹ بھر کر سونا کمالِ ایمان کے خلاف ہے: حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’(کامل) مومن وہ نہیں ہوتا جو خود تو پیٹ بھر کے کھائے اور اُس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا رہے۔ ‘‘( أخرجہ البخاری فی الأدب المفرد برقم :۱۱۲)

حضرت انس ؓ کی روایت میں اسے علم کے ساتھ مقید کیا کہ اس کو معلوم ہو کہ اس کا پڑوسی بھوکا ہے، پھر بھی وہ اس کی فکر نہ کرے تو وہ کامل مؤمن نہیں ہوسکتا، ملاحظہ کیجیے: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: وہ شخص مجھ پر ایمان لانے والا نہیں ہوسکتا، (یعنی کامل مؤمن نہیں ہوسکتا) جو خود تو پیٹ بھر کر سوئے اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا رہے اور وہ یہ بات جانتا بھی ہو۔‘‘( أخرجہ الطبرانی فی الکبير برقم :۷۵۱)

قریب کا پڑوسی زیادہ حقدار ہے

حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے کہا: یا رسول اللہﷺ! میرے دو پڑوسی ہیں، ان میں سے پہلے میں کس کو حصہ بھیجوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جس کا دروازہ تم سے زیادہ نزدیک ہو۔‘‘(أخرجہ البخاری فی صحيحہ برقم :۵۶۷۴، وأبو داود برقم :۵۱۵۵)

ہمسایہ کے لیے سالن کا شوربا زیادہ کرنا

حضرت ابو ذرؓسے روایت ہے کہ میرے خلیل نبی کریم ﷺ نے مجھے وصیت کی کہ جب تم سالن پکاؤ تو اس میں شوربا زیادہ رکھو، پھر اپنے قریبی ہمسایے کے گھر والوں کو دیکھ کر (جو ضرورت مند ہوں) اس میں کچھ اچھے طریقے سے انہیں بھیجو ۔‘‘(أخرجہ مسلم فی صحيحہ برقم :۲۶۲۵ )

پڑوسی ایک دوسرے کو ہدیہ دیں

پڑوسی ایک دوسرے کو ہدیہ لینے اور دینے کا اہتمام کریں، خواہ کوئی معمولی چیز ہی کیوں نہ ہو، ہلکا اور معمولی سمجھ کر ہدیہ کو حقیر نہ سمجھیں، خاص طور پر خواتین کو اس کی ترغیب دی گئی ہے کہ ان کے جذبات بہت جلد متاثر ہوجاتے ہیں اور ان کا آبگینۂ محبت بہت جلد چُورچُور ہوجاتا ہے۔

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے مسلمان عورتو! کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کے لیے معمولی اور حقیر خیال نہ کرے، اگرچہ بکری کی کھری کا ہدیہ ہو۔ ‘‘( أخرجہ البخاری فی صحيحہ برقم :۲۵۶۶، ۶۰۱۷، ومسلم فی صحيحہ برقم :۱۰۳۰)

ترمذی شریف کی روایت میں ہدیہ کو دل کی کدورت دور کرنے کا سبب فرمایا ہے: ’’تم ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو، اس لیے کہ ہدیہ دل کی کدورت دور کرتا ہے اور کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کے ہدیہ کو معمولی اور حقیر خیال نہ کرے، اگرچہ بکری کے کھر کا ایک ٹکڑا ہو۔‘‘( أخرجہ الترمذي في سننہ برقم :۲۱۳۰)

پڑوسی کو تکلیف دینے اور نہ دینے والے کا انجام

حضرت ابو ہریرہ ؓروایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! فلاں عورت کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ کثرت سے نماز، روزہ اور صدقہ خیرات کرنے والی ہے ( لیکن ) اپنے پڑوسیوں کو اپنی زبان سے تکلیف دیتی ہے ( یعنی برا بھلا کہتی ہے)۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : وہ دوزخ میں ہے۔

پھر اس شخص نے عرض کیا: یا رسو ل اللہ! فلاں عورت کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ نفلی روزہ ، صدقہ خیرات اور نماز تو کم کرتی ہے، بلکہ اس کا صدقہ وخیرات پنیر کے چند ٹکڑوں سے آگے نہیں بڑھتا، لیکن اپنے پڑوسیوں کو اپنی زبان سے کو ئی تکلیف نہیں دیتی۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا: وہ جنت میں ہے ۔‘‘( أخرجہ ابن حبان فی صحيحہ برقم :۵۷۶۴)

جس کے شر سے پڑوسی محفوظ نہ ہو

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم وہ مؤمن نہیں ہوسکتا، اللہ کی قسم وہ مؤمن نہیں ہوسکتا، اللہ کی قسم وہ مؤمن نہیں ہوسکتا، پوچھا گیا کہ کون؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس کی ایذا رسانی سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں۔ ‘‘( أخرجہ البخاری فی صحيحہ برقم :۵۶۷۰)

مسلم شریف کی روایت میں ہے: یعنی ’’وہ جنت نہیں جائے گا جس کی ایذا رسانی سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں۔‘‘( أخرجہ مسلم فی صحيحہ برقم:۴۶)