• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مورث کی وفات کے وقت جو ورثاء حیات ہوں، وہی حصہ پائیں گے

تفہیم المسائل

سوال: میرے چھ بھائی اور چار بہنیں تھیں، میں پانچویں بہن ہوں اور میری شادی نہیں ہوئی ، والدین فوت ہوچکے ہیں ، والد کی جائداد سے مجھے میرا حصہ مل چکا ہے، جو میرے پاس ہے۔ میرے دو بھائی اور دو بہنیں فوت ہوئے، اُن کی اولاد موجود ہے ، دونوں بھائیوں کے تین بیٹے، تین بیٹیاں اور دونوں بہنوں کے پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ اس کے علاوہ میرے حقیقی چار بھائی اور دو بہنیں حیات ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ میرے فوت ہونے کی صورت میں میری جائداد کی تقسیم کس طرح ہوگی ؟،( ایک سائلہ ، معرفت: مولانا محمد جمشید ہاشمی)

جواب: ابھی ماشاء اللہ آپ حیات ہیں ، کسی شخص کی زندگی میں اُس کی وراثت تقسیم نہیں ہوتی اور نہ ورثاء کا تعین ہوسکتا ہے ، ورثہ یا ترکہ اُسے کہتے ہیں، جو کوئی شخص اپنی وفات کے بعد پیچھے چھوڑ جاتا ہے، اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ کون وارث بنے گا اور کون مُورِث ، کس کا انتقال پہلے ہوگا اور کس کا بعد میں ؟۔ تاہم آپ کے سوال کے مطابق آپ کے چار حقیقی بھائی اور دو حقیقی بہنیں حیات ہیں، حقیقی بھائیوں کی موجودگی میں اُن کی اولاد وارث نہیں بنتی اور حقیقی بہنوں کی اولاد ذوی الارحام میں شمار ہوتی ہے ، ذوی الفروض اور عصبات کی موجودگی میں ذوی الارحام کو بھی کچھ نہیں ملتا۔ 

آپ کے انتقال کے وقت اگر آپ کے حقیقی بھائی اور حقیقی بہنیں بدستور حیات ہوئے تو کل ترکہ ’’وَإِن کَانُواْ إِخْوَۃً رِّجَالاً وَنِسَآئً فَلِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَیَیْنِ‘‘ (اور اگر (میت کے وارث) بہن بھائی ہوں تو ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہے ،(سورۂ نسا:176) کے تحت 10حصوں میں تقسیم ہوگا :چاروں بھائیوں کو8حصے (فی کس2حصے) اور دونوں بہنوں کو 2 حصے (ہر ایک کو ایک ایک حصہ) ملیں گے، اگر اس وقت صورتِ حال تبدیل ہوجاتی ہے ، تو درج بالا تقسیم غیر مؤثر ہوجائے گی ۔( واللہ اعلم بالصواب)