• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: ہم دو بھائی اور تین بہنیں ہیں، والدہ محترمہ بھی حیات ہیں ، ہمارے والد کا ایک مکان تھا ،جسے فروخت کرکے ہم دونوں بھائیوں نے آدھا آدھا حصہ لے کر الگ الگ رہائش اختیار کرلی، والدہ اور بہنوں کو حصہ نہیں دیا، اس کے علاوہ والد کے ترکے میں ایک دکان بھی شامل ہے، دکان میں اور میرے بیٹے چلاتے تھے، اس کی آمدنی سے والد ہ کو ہرماہ پینتیس ہزار روپے اور بھائی کو دس ہزار روپے دیتے تھے، ہمیں الگ ہوئے پندرہ سال گزر چکے ہیں، آپ شرعی رہنمائی فرمائیں تاکہ کسی وارث کی حق تلفی نہ ہو ، (ایک سائل، راولپنڈی)۔

جواب: ترکے کی تقسیم جس قدر جلد ممکن ہو کردینا چاہیے، تاخیر سے مَفاسد اور پیچیدگیاں بڑھتی ہیں اور تقسیم کا عمل دشوار ہوجاتا ہے۔ والدہ اور بہنوں کی حق تلفی تو آپ گزشتہ پندرہ سال سے کررہے ہیں ، اب آپ کو خیال آیا ہے کہ کسی وارث کی حق تلفی نہ ہو۔

پندرہ سال تک آپ دونوں بھائی اپنے والد کے ترکے سے فائدہ اٹھاتے رہے، آپ نے دکان اور اس میں چلتے ہوئے کاروبار کے ذریعے زیادہ فوائد حاصل کیے، ان فوائد کا مالی تخمینہ لگانا مشکل ہوگا، تاہم موجودہ صورت حال میں آپ نے والد کے مکان کو فروخت کرکے جو الگ الگ مکان لیے، دکان کی آمدنی سے جو کچھ جائداد بنائی ،تو یہ تمام آپ کے والد کا ترکہ شمار ہوگا اور اصولِ وراثت کے قوانین کے تحت حسبِ تناسب شرعی ورثاء کے درمیان تقسیم ہوگا۔

شرعی حکم یہ ہے کہ باپ کی زندگی میں جوجائداد تھی، تقسیم کے بغیر تمام بیٹے اُس میں مل کر کام کرتے رہے، وہ مال میں شریک نہیں ہیں تمام مال باپ کی ملکیت ہوتا ہے اور باپ کے انتقال کے بعد تمام وارثوں کا ہے، اُس میں جتنا اضافہ ہوگا، وہ ورثاء کا ہوگا، اگرچہ کاروبار چلانے والے چند افراد ہوں اور باقی وُرَثاء عملی طور پر کام نہ کر رہے ہوں، تنویرالابصار مع الدر المختار میں ہے: 

ترجمہ: ’’ اکثر کاشتکار اور دیگر (پیشوں سے وابستہ ) لوگوں میں یہ ہوتاہے کہ ان میں سے کوئی شخص فوت ہوجاتا ہے ،تو اُن کی اولاد ترکے کو تقسیم کئے بغیر اِسی طرح قائم رکھتی ہے اور وہ اُس زمین میں کھیتی باڑی، خریدوفروخت، قرض کالین دین اور دوسرے اُمور جاری رکھتے ہیں اورکبھی فوت ہونے والے کا بڑا بیٹا تمام کاموں کی نگرانی کرتا ہے اور چھوٹے اُس کے حکم پر عمل کرتے ہیں، یہ سب ایک طرح سے غیر رسمی تفویضِ اختیار ہوتا ہے (یعنی وہاں کے لوگوں کا عرف یاعادت ہے) ‘‘، آگے چل کر لکھتے ہیں: 

ترجمہ: ’’ پس جب ان کی سعی ایک ہو اور ہرایک کی محنت کی کمائی جدا جدا نہ ہو، تو سب جمع شدہ مال میں برابر کے شریک ہوتے ہیں، اگر چہ ذہنی استعداد اور عمل کی مقدار ایک جیسی نہ ہو ، ’’فتاویٰ خیریہ‘‘ میں اِسی طرح کا فتویٰ دیا ہے۔ اور ان میں سے اگرکسی نے اپنی ذات کے لیے کچھ خریدا تو وہ اُس کا مالک ہوجائے گا اور اگر اُس نے مشترکہ مال سے قیمت دے کر خریدا تھا، تو اس میں شرکاء کا جو حصہ صرف ہوا، اس کا وہ ضامن ہوگا، (جلد6، ص: 372)‘‘۔ الغرض کل ترکہ8حصوں میں تقسیم ہوگا: بیوہ کو 1/8(یعنی آٹھواں حصہ) ، دونوں بیٹوں کو4حصے(فی کس2 حصے ) اور تینوں بیٹیوں کو 3حصے (ہر ایک کو ایک ایک حصہ) ملیں گے۔ (واللہ اعلم بالصواب )