• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حسن ناصر

زندگی ہمارے نزدیک ایک ایسا کیمپس ہے، جس کی درسگاہ میں ہر نوع کے مضامین پڑھنے اور پڑھانے جاتے ہیں۔ ہر شخص اپنی استعداد، قابلیت، ذہنی رجحان و کشادگی، وسعت و فکر کے مطابق مختلف اسباق سے سیکھتا ہے۔ اس میں ہر ساعت، ہر لمحہ کچھ نہ کچھ نیا سیکھنے کی گنجائش رہتی ہے۔ 

زندگی کے مسائل اور مصائب کا بہادری سے سامنا کرنے والے اپنی ہمت اور کوششوں سے ان پر قابو پالیتے ہیں، ایسے ہی لوگوں میں محمد اشرف بھی ہے، جس نےمصائب سے ہار نہیں مانی بلکہ ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

یہ آج سے تقریباً اٹھائیس سال قبل کی بات ہے گورنمنٹ ہائی اسکول دریا خان کے باہر قطار میں لگی ریڑھیوں میں ایک ریڑھی گول گپے کی بھی تھا، جو محمد اشرف کی تھی اُس کا وہاں پہلا دن تھا۔ کچھ ہی دنوں میں وہ گول کپوں اور اپنے اخلاق و گفتگو کی وجہ سے اتنا مشہور ہوا کہ دریا خان کا کوئی جوان، بچہ یا طالبعلم ایسانہ ہوگا جو اُسے ناجانتا ہو۔ 

قارئین کو یہ جان کر حیرانگی ہوگی کہ، اس نےنہ صرف پنجابی زبان میں ماسٹرز کیا بلکہ درس وتدریس کے شعبہ سے وابستہ ہونے کے لیے بی ایڈ بھی کیا لیکن مقدر میں لاکھ کوشش کے باوجود اسے معلم بننا نہیں لکھا تھا۔

سو، مایوس ہوکر اُس نےدوسرے اداروں میں ملازمت کے حصول کی بہت کوشیشں کیں لیکن کہیں ملازمت نہ ملی۔ بالاآخر گھر کے نامساعد حالات دیکھتے ہوئے محمد اشرف نے گول گپوں کی ریڑھی لگانا شروع کردی لیکن یہ سوچ کر ساتھ نوکری کی تلاش بھی جاری رکھی کہ ملازمت مل گئی تو گول گپے بیچنا چھوڑ دوں گا لیکن بہت کوششوں کے بعد بھی ناکام رہا ،کیوں کہ نہ تو اُس کے پاس سفارش تھی اور نہ ہی رشوت دینے کے لیے پیسے۔

وقت گزرنے کے ساتھ عُمر بھی زیاہ ہوتی گئی، زندگی کے جھمیلوں میں معلم بننے کا خواب ادھورا ہی رہ گیا ۔ آج بھی اُسی ا سکول کے باہر ریڑھی پر گول گپے بیچ رہا ہے، جس ا سکول میں معلم بننے کے خواب دیکھا کرتا تھا۔ جب کوئی اُس سے پوچھتا ہے کہ ’’اتنا پڑھنے لکھنے کے بعد ملازمت کیوں نہیں ملی؟ ۔‘‘ اس پر وہ ہنس کر کہتا ہے،’’میری تعلیم کا مقصد صرف نوکری کاحصول نہیں تھا، اس نے تومُجھے جینے کا ڈھنگ سکھا دیا ہے۔‘‘

مُحمد اشرف نئی نسل کےلئے ایک مثال ہے، جس نے اپنی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجوگول گپے بیچنے کرنے میں شرم محسوس نہیں کی اور نہ ہی نوکری کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دہرابیٹھا رہا۔

یاد رکھیں زندگی ، تپتی ہواؤں کا سفر ہے۔ بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ہار نہیں ماننی ہے۔ آگے بڑھنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے ، ذہنی اور فکری صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ غیر متزلزل یقین، مصمم ارادےاور آگے بڑھنے کی صلاحیت ضروری ہوتی ہے۔ہمت ہر مشکل کام کو آسان بنادیتی ہے۔ 

یہ نہ ہو تو زندگی پتھر کی طرح جامد ہوکر رہ جاتی ہے۔ یاد رکھیں، کوشش میں کبھی جیت ہوتی ہے اور کبھی ہار اگر آپ جیت گئے ہیں تو رب کا شکر ادا کریں۔ جو نوجوان کسی کام کو تسلسل کے کرتے رہتے ہیں وہ اپنی ناؤ کو ایک دن ضرور ساحل تک پہنچا کر رہتے ہیں۔ ان کا عزم و حوصلہ چٹانوں سے ٹکرانے اور طوفانوں کا رُ خ موڑ دیتا ہے۔ 

دنیا میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے کہ جسے مشکلا ت کا سامنا نہ ہو، مشکل کی کوئی بھی صورت ہوسکتی ہے۔ جیت ان ہی کا مقدر ہوتی ہے، جنہیں اپنے جیتنے کا یقین ہو۔ زندگی کی ٹرین کو پٹری پر لانے کے لیے کوشش کرنی پڑتی ہے، لہذا کبھی ہمت نہ ہاریں یہ نہ سوچیں کہ میں پوری زندگی ناکام رہوں گا۔