اسلام آباد(رپورٹ:، رانامسعود حسین) سپریم کورٹ میں اراکین پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلیز کے اپنی سیاسی پارٹی کی پالیسیوں سے انحراف سے متعلق آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے حوالے سے دائرصدارتی ریفرنس اور آئینی درخواستوں سے متعلق فیصلے کیخلاف دائر کی گئی نظر ثانی کی درخواستوں کی سماعت کے دورا ن فریقین کے وکلا ء کو ہدایت کی ہے کہ امریکا اور برطانیہ سمیت دیگر ممالک میں پارٹی پالیسی سے انحراف کے معاملے پر عدالت کی معاونت کریں، جبکہ دوران سماعت چیف جسٹس ریمارکس دیئے ہیں کہ آج کل سپریم کورٹ میں کچھ بھی بند دروازوں کے پیچھے نہیں ہو رہا، کسی کو بے ضمیر کیسے کہیں، اختلاف کرنے والا جج بھی باضمیر ہوگا یا نہیں؟ جب آئین میں ہےنااہل رکن ڈی سیٹ ہوگا تو ڈی سیٹ ہی ہوگا، رائے دی گئی منحرف رکن ڈی سیٹ ہوگا ، دوسری طرف کہا گیا نااہلی مدت کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے ،یہ تو تضاد ہے، لگتا ہے آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ تحریک عدم اعتماد کو غیر موثر بنانے کیلئے تھا۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے بتایاہے کہ نئے بینچ کی تشکیل کے حوالے سے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) کمیٹی کے اجلاس میں جسٹس منصور علی شاہ کا انتظار کیا گیا ہے لیکن انکے اجلاس میں شرکت سے انکار کے بعد ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں بچاتھا ، اسلئے جسٹس منیب اختر کی جگہ پر جسٹس نعیم اختر افغان کو بنچ میں شامل کرلیا گیا ہے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس مظہر عالم میاں خیل ، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل 5رکنی لارجر بینچ نے منگل کے روز نظرثانی کی درخواستوں کی سماعت کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس منیب اختر کو کل کی سماعت کے بعد بینچ میں شمولیت کی درخواست بھیجی گئی تھی مگر انہوں نے اپنی پرانی پوزیشن برقرار رکھی ہے، کیس کی فائل میرے پاس آئی تھی تو میں نے جسٹس منصور علی شاہ کا نام بنچ میں شامل کرنے کی تجویزدی تھی ، سب کو معلوم ہے کہ آجکل سپریم کورٹ میں کیا چل رہا ہے؟آج کل سپریم کورٹ میں کچھ بھی بند دروازوں کے پیچھے نہیں ہو رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ججز کمیٹی کا اجلاس آج 9 بجے بلایا گیاتھا اورہم نے جسٹس منصور علی شاہ کا انتظار بھی کیا ، انکے نہ آنے پر انکے آفس سے بھی رابطہ کیا گیا، لیکن انکی جانب سے کمیٹی کے اجلاس میں انکار کے بعد ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں بچا تھا ، میں نہیں چاہتا تھا کہ کسی دوسرے بنچ کو ڈسٹرب کیاجائے ، تاہم ہم نے جسٹس نعیم اختر افغان کو نئے لارجر بینچ میں شامل کرلیا ہے ۔
اسی دوران پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر روسٹرم پر آئے اور نئے بینچ کی تشکیل کے عمل پر اعتراض اٹھایا تو چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں آپکا موقف بعد میں سنا جائیگا، دوران سماعت درخواست گزار، سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر، شہزادشوکت ایڈوکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اس معاملہ کیلئے صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا تھا جبکہ اسکے ساتھ ساتھ آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت بنیادی حقوق سے متعلق چند درخواستیں بھی دائر کی گئی تھیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ صدارتی ریفرنس پر رائے دینے اور آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر کی گئی درخواستوں کے دو الگ الگ دائرہ اختیار ہیں، دونوں کی ایک ساتھ سماعت کرکے فیصلہ کیسے جاری کیا جاسکتا ہے؟
انہوں نے وضاحت کی کہ صدراتی ریفرنس پر عدالت کسی آئینی و قانونی معاملہ پرصرف اپنی رائے دے سکتی ہے، فیصلہ جاری نہیں کرسکتی ہے ؟کیا دونوں دائرہ اختیار مختلف نہیں ہیں؟ کیا عدالت نے دونوں معاملات کو یکجا کرنے کی وجوہات پر کوئی فیصلہ جاری کیا ہے؟ صدارتی ریفرنس پر صرف صدر کے قانونی سوالات کا جواب دیا جاتا ہے اوراس پر دی گئی رائے پر عمل نہ ہو تو صدر مملکت کیخلاف توہین کی کارروائی نہیں ہو سکتی ہے۔