اسلام آباد، لاہور (نمائندہ جنگ، مانیٹرنگ ڈیسک، ایجنسیاں) وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے احتجاج کے سلسلہ میں ڈی چوک پہنچنے والے مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کے باعث کاروبار زندگی مفلوج ہوگئی، دن بھر اسلام آباد کے چائنہ چوک، جناح ایونیو اور دیگر مقامات پر تصادم اور شیلنگ کا سلسلہ جاری رہا ،پی ٹی آئی کارکن پتھرائو کرتے اور شیل اٹھا کر واپس سیکورٹی اہلکاروں پر پھینکتے رہے ، ڈی چوک پر وقفہ وقفہ سے تصادم اور پتھرائو سے متعدد کارکن زخمی ہوگئے، بارش سے دھرنے کے شرکا پریشان رہے، احتجاج کے باعث جڑواں شہر میں معمولات زندگی متاثر رہی، میٹرو اور موبائل فون سروس بند ہے،پی ٹی آئی مظاہرین نے 26 نمبر چنگی پر ایک کرین اور ایک موٹرسائیکل کو آگ لگا دی۔ اسلام آباد میں فوج کا گشت جاری ہے، رات گئے پولیس نے مظاہرین کی گرفتاری کیلئے اسلام آباد کے ہوٹلوں اور ریستورانوں میں سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے، انتظامیہ نے رات گئے اسلام آباد کی اہم شاہراہیں کھول دیں، ٹریفک بحال اور اہم علاقے کلیئر کر دیئے گئے، لاہور میں احتجاج کے دوران پولیس نے پی ٹی آئی کارکنوں پر شیلنگ کی،کئی کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا، امن و امان برقرار رکھنے کیلئے شہر میں رینجرز کو طلب کیا گیا، وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے احتجاج کا مقصد شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) اجلاس کو سبوتاژ کرنا ہے، افغان شہریوں کا پکڑا جانا تشویشناک ہے، پلاننگ ہو رہی ہے،انکے احتجاج کے مقاصد کچھ ہیں، اسلام آباد پولیس نے احتجاج کرنے والے 564 افراد کو گرفتار کیا ہے، گرفتار افراد میں 120 افغانی شہری بھی شامل ہیں، ڈی چوک سے خیبرپختونخوا کے 11 پولیس اہلکاروں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے، علی امین گنڈا پور نے اسلام آباد پر حملے کی قیادت کی، پی ٹی آئی رہنما عمر ایوب نے علی امین گنڈا پور کو غیر قانونی حراست میں لینے کا دعویٰ کیا ہے تاہم شوکت یوسفزئی نے وزیراعلیٰ کی کے پی ہاؤس میں موجودگی اور انتظامیہ کیساتھ مذاکرات کی تصدیق کرتے ہوئےکہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی موجودگی میں انکی انتظامیہ کیساتھ مذاکرات جاری ہیں، جس میں عمران خان کی رہائی سمیت دیگر مطالبات پیش کیے گئے ہیں، سرکاری ذرائع نے کہا کہ علی امین گنڈا پور کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے،علی امین گنڈا پور اچانک گئے ، وزیراعلیٰ خیبرپختوا کی اس طرح غائب ہونے کے حوالے سے جب وزیر داخلہ محسن نقوی سے سوال کیا گیا تو انہوں نے گنڈا پور کی گرفتاری کے حوالے سے تصدیق یا تردید کرنے سے گریز کیا۔تفصیلات کے مطابق ڈی چوک اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے احتجاج کیلئے وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور کی قیادت میں قافلہ اسلام آباد پہنچ گیا، پولیس اور پی ٹی آئی کے درمیان اسلام آباد کے چائنہ چوک، جناح ایونیو اور دیگر مقامات پر تصادم اور شیلنگ کا سلسلہ جاری رہا، پی ٹی آئی کارکنوں کی طرف سے بھی پتھرائو، شیل اٹھا کر واپس پھینکتے رہے ،متعدد کارکن زخمی ہو گئے،ڈھائی ہزار سے زائر کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا، ڈی چوک پر احتجاج کیلئے قافلوں کی صورت میں پی ٹی آئی کارکن اسلام آباد پہنچنے کیلئے کوشاں رہے جس باعث انکے اور پولیس کے درمیان جگہ جگہ تصادم جاری رہا ،ٹیکسلا ٹھٹھہ خلیل کے مقام پر پولیس کی جانب سے شدید شیلنگ کی گئی۔ شدید مزاحمت کے بعد مرکزی قافلہ میں شامل پی ٹی آئی مظاہرین نے پتھر گڑھ کٹی پہاڑی کے مقام پر رکاوٹوں کو عبور کرلیا، پی ٹی آئی قافلے کے 8 سو کارکن پنڈی کی حدود میں داخل ہوگئے۔ 26 نمبر چنگی پر کارکنوں نے ایک کرین اور ایک موٹرسائیکل کو آگ لگا دی۔وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور قافلے کے ساتھ اسلام آباد پہنچ گئے اوروہاں قائم کے پی ہاؤس میں داخل ہوگئے جبکہ جگہ جگہ سے چھوٹے اور بڑے قافلے اسلام آباد کے مختلف مقامات پر موجود رہے جن میں چائنہ چوک، جناح ایونیو اور دیگر مقامات شامل ہیں جہاں کارکنوں اور پولیس کے درمیان تصادم ہوا۔ کارکنوں کی جانب سے پتھراؤ کیا گیا جبکہ پولیس کی جانب سے آنسو گیس کے شیل اور ربڑ کی گولیاں فائر کی گئیں، پولیس کے پاس آنسو گیس شیل کم ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی کارکن آگے بڑھنے لگے ہیں، جس پر پولیس نے مزید آنسو گیس کے شیل طلب کرلیے۔ پولیس کے مطابق کارکن غلیلوں کے ذریعے کنچے بھی مارے، پولیس اور رینجرز کے پی ہاؤس میں داخل ہوگئی، باہر موجود کارکنوں کو منتشر کرنے کیلئے شیلنگ بھی کی ،ڈی چوک پہنچنے والے تحریک انصاف کے کارکنان اور پولیس کے درمیان وقفے وقفے سے جھڑپیں ہوئیں۔ اسلام آباد میں موسلا دھار بارش سے پولیس کی جانب سے کی گئی آنسو گیس کی شیلنگ کا اثر کم ہونے پر پی ٹی آئی کے حامیوں کا ہجوم ڈی چوک پر پہنچ گیا۔مظاہرین نے ڈی چوک پر نعرے لگانے شروع کردیئے، تیز ہوا کے باعث آنسو گیس کے گولوں کا دھواں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر واپس آنے کے بعد پولیس کو واپس جانے پر مجبور کر دیا ۔تاہم بارش تھمنے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اہلکار ڈی چوک واپس لوٹ گئے۔ رات گئے قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے وفاقی دارالحکومت کی اہم شاہراہوں کو کھول دیا۔ ذرائع کے مطابق جناح ایونیو سے فیصل ایونیوتک تمام پلازوں اور دیگر عمارتوں کی تلاشی لی گئی کہ کہیں ان میں کوئی شرپسند عناصر توموجود نہیں، پولیس اور رینجرزکو وزارت داخلہ کی جانب سے ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ اسلام آباد کی تمام بڑی مارکیٹوں، ہوٹلوں ،گیسٹ ہاؤسز کو چیک کیاجائے کہ وہاں کوئی شخص غیرقانونی طور پر قیام پذیر تونہیں ،ادھر اسلام آباد پولیس کے ذرائع کاکہنا ہے کہ ڈی چوک ،چائنہ چوک ،جناح ایونیو سمیت تمام علاقہ رات گئےکلیئر کروالیاگیا جبکہ موٹروے ،جی ٹی روڈ اورکشمیر ہائی وے سمیت اہم شاہراہوں پر ٹریفک بحال کردی گئی ہے ۔ احتجاج کے باعث جڑواں شہروں میں معمولات زندگی دوسرے روز بھی متاثر رہے ،داخلی اور خارجی راستوں پر کنٹینرز موجود ہیں، میٹروبس ، تمام بڑی شاہراہیں اور موبائل فون سروس بند ہونے سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ علی امین گنڈاپور کو اسلام آباد میں خیبرپختونخوا ہاؤس سے گرفتار کرنے کی متضاد اطلاعات ہیں جبکہ وزیراعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر سیف نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو کے پی ہاؤس میں تحویل میں لے لیا گیا ہے، قبل ازیں اطلاعات بھی تھیں کہ آئی جی اسلام آباد نے علی امین گنڈا پور کو حراست میں لیا ہے اور انکے خلاف ریاست کیخلاف حملہ آور ہونے پرقانونی کارروائی کی جائیگی کیونکہ ان پر سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کےالزامات ہیں۔تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی عمر ایوب نے بھی وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی اسلام آباد سے گرفتاری کا دعویٰ کیا، انہوں نے کہا کہ علی امین گنڈاپور کو کے پی ہاؤس سے غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا ، رینجرز اور اسلام آباد پولیس نے کے پی ہاؤس کی حدود کی خلاف ورزی کی۔ دوسری جانب نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے سماجی رابطے کی سائٹ پر اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے احتجاج کیلئے وقت کا چناؤ افسوسناک اور قابل مذمت ہے، احتجاج اور افراتفری پھیلانے کا مقصد ایس سی او کے ایجنڈے میں خلل ڈالنا ہے۔اسلام آباد میں میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا ساری لائنز کراس کر رہے ہیں، اگر مزیدکراس کی تو سخت کارروائی کی جائیگی، پی ٹی آئی قافلے سے پولیس اہلکاروں پر مسلسل فائرنگ اور شیلنگ کی جا رہی ہے، پی ٹی آئی کے شرپسند پولیس پر پتھراؤ بھی کر رہے ہیں، 80 کے قریب پولیس اہلکار زخمی ہوئے چیک کررہے ہیں کہ انکے پاس آنسو گیس کے شیل کیسے اور کہاں سے آئے، پولیس پر فائرنگ کی گئی یہ کیسا پُرامن احتجاج ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں 120 افغان شہری پکڑے گئے، اپنا احتجاج ہے تو افغان شہری کہاں سے آ رہے ہیں، اس ساری صورتحال کے ذمے دار وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور ہیں۔محسن نقوی نے کہا کہ ان کو بہت سمجھانے کی کوشش کی ہے لیکن ان کے عزائم کچھ اور لگ رہے ہیں، شواہد ہیں کہ بنوں کے لوگوں کو کہا گیا ہے کہ رائفل لیکر جائیں، دھاوا بولنے کی کی قیمت ادا کرنا ہو گی، دھاوا بولنے پر تو کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔خیبر پختونخوا میں ایمرجنسی لگانے کے سوال پر وزیر داخلہ نے جواب دیا کہ صدر اور وزیر اعظم رابطے میں ہیں، جو حکمت عملی وہ بنائینگے اُس پر عمل درآمد کرینگے۔ادھر لاہور میں امن و امان کے قیام کے لیے رینجرز کو طلب کرلیا گیا ، جی پی او چوک کے باہر اور کئی دیگر پوائنٹس پر رینجرز موجود ہے، لاہور میں احتجاج کے پیش نظر شہر کے داخلی اور خارجی راستوں کوکنٹینرز لگا کر آمدورفت روک دی گئی ، مختلف شاہراہوں کو بند کرکے پولیس تعینات کی گئی ہے جی ٹی روڈ سے بتی چوک آنے والا راستہ کنٹینر لگا کر مکمل طور پر بند کردیا گیا ہے، مینار پاکستان جانے والے تمام راستوں پر بھی کنٹینر رکھ دیےگئے ہیں۔ رنگ روڈ محمود بوٹی سمیت مختلف مقامات سے بند ہے،گاڑیوں کی قطاریں لگ گئی ہیں ۔ بابو صابو انٹر چینج بھی کنٹینرز کے ذریعے سیل کردیا گیا ہے۔ ایمبولینسز میں پھنسنے سے مسافروں کے ساتھ ساتھ مریض بھی پریشان ہیں۔ لاہور سے دوسرے شہر جانے والی ٹرانسپورٹ بھی مکمل طور پر بند ہے ، لاہور ہائیکورٹ کے قریب سے پی ٹی آئی رہنما سلمان اکرم راجہ، وکلا اور دیگر مقامات سے احتجاج کرنے والے پی ٹی آئی کے متعدد کارکنوں کو پولیس نے گرفتار کرلیا جبکہ مظاہرین کے پتھراؤ سے ایک پولیس اہلکار زخمی ہوا ہے، پولیس ڈھائی ہزار سے زائد کارکنوں کو حراست میں لے چکی ہے ،پنجاب حکومت نے دو روز قبل پی ٹی آئی کے کے 1590 کے قریب کارکنان کی گرفتاری کے آرڈر جاری کیے تھے۔ تحریک انصاف کی جانب سے اسلام آباد کے ڈی چوک کے بعد گزشتہ ورزلاہور کے مینار پاکستان پر احتجاجی مظاہرہ اور احتجاج کرنے کا اعلان کیا گیا۔