• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معاشی بحالی، پاکستان سمجھداری سے فیصلے کرے، سربراہ برطانوی ہائی کمیشن پنجاب

لاہور(آصف محمود بٹ ، میاں سیف الرحمن ) برطانیہ کی پاکستان میں سرمایہ کاری میں کافی دلچسپی ہے اور ہم اس کی حوصلہ افزائی کے لیے کام کر رہے ہیں۔آبادی کے لحاظ سے پاکستان کو ڈیموگرافک چیلنج درپیش پاکستان معیشت کودوبارہ پٹری پر لانے کیلئے سمجھدار ی سے سخت فیصلے کرے پاکستان کی مستحکم معیشت دونوں ممالک کے لیے بہت اہم ہے اور تجارتی تعلقات کے لیے اچھاہے۔ ہمت کارڈ پروگرام کے ذریعے خواتین سمیت پسماندہ طبقات پر توجہ مرکوز کر نا میرے خیال سے ایک بڑا قدم ہے۔ پاکستانی کھانے، مسالے دار ’قیمہ نان‘ اور گلاب جامن پسند ہیں برطانوی عوام نے سیلاب سے متاثرہ پاکستانیوں کے لیے 41.5 ملین پاؤنڈز جمع کیے جبکہ برطانیہ کی حکومت نے اس تباہی سے نمٹنے کے لیے 39 ملین پاؤنڈ نقد رقم کی منتقلی میں مدد کی ۔ ہماری قریبی دوستی اور باہمی مفادات کے پیش نظر محفوظ پاکستان ہی برطانیہ کے مفاد میں ہے ۔ پاکستان کی مستحکم معیشت دونوں ممالک کے لیے بہت اہم ہے اور تجارتی تعلقات کے لیے اچھاہے۔ مجھے پاکستانی کھانے، مسالے دار ’قیمہ نان‘ اور میٹھے ’گلاب جامن‘ پسند ہیں. ان خیالات کا اظہار برطانوی ہائی کمیشن پنجاب آفس کی سربراہ کلارا اسٹرینڈ ہوئےنے ’’جنگ اور دی نیوز ‘‘ کے ساتھ خصوصی انٹرویو کے دوران کیا ۔پاکستان اور برطانیہ کے درمیان باہمی تجارت کو کس طرح مضبوط کیا جائے پر ایک سوال کے جواب میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اور مختلف کے شعبوں میں بہتری کا اشارہ دیتے ہوئے کلارا سٹرینڈ ہوئے نے کہا کہ برطانیہ یورپ میں سب سے بڑا جبکہ دنیا میں پاکستان کا تیسرا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے جبکہ پاکستان میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کرنے والا تیسرا بڑا ذریعہ ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کی مالیت 4.1 ارب پاؤنڈ سالانہ ہے، جو کہ اہم ہے۔ اس موقع پر برطانوی سفارت کار نے برطانیہ کی پانچ بڑی کمپنیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان کی جی ڈی پی کا ایک فیصد اپنا حصہ ڈال رہی ہیں اور یہ بہت زیادہ ہے۔ برطانوی ہائی کمیشن پنجاب کی سربراہ نے کہا کہ پاکستان میں دو سو برطانوی کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ ہم برطانوی کمپنیوں کے لیے پاکستان میں سرمایہ کاری کو آسان بنا رہے ہیں۔ برطانیہ میں پہلے سے ہی سرمایہ کاروں کے لیے ایک ون اسٹاپ شاپ موجود ہے جو بنیادی طور پر اس عمل کو تھوڑا سا آسان بنائے گی اور ون اسٹاپ شاپ پروجیکٹ کے ذریعے 50 ملین پاؤنڈز کی سرمایہ کاری پائپ لائن میں ہے۔ کلارا سٹرینڈہوئے نے کہا کہ ہم پاکستانی حکومت کی بھی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں کہ وہ سرمایہ کاروں کے لیے خاص طور پر برطانوی پاکستانی تارکین وطن کے لیے آسانیاں پیدا کرے۔ پاکستانی حکومت اسے آسان بنانے کے لیے جو کچھ بھی کرے گی وہ اس کی جیت ہے۔ برطانوی ہائی کمیشن پنجاب کی سربراہ کلارا سٹرینڈہوئے نے کہا کہ انہوں نے چند ہفتے قبل سیالکوٹ کا دورہ کیا جہاں میں نے بروملے سپورٹس اور ایم بی سپورٹس کا دورہ کیا۔ یہ برطانیہ کو برآمد کرنے والی زبردست اور ناقابل یقین کمپنیاں ہیں۔ ایم بی اسپورٹس انگلش ولو (لکڑی) کو کرکٹ کے بلے بنانے کے لیے درآمد کر رہا ہے۔ یہ انگلش ولو (لکڑی) درآمد کرتے ہیں، یہاں سیالکوٹ میں کرکٹ بیٹ بناتے ہیں پھر انہیں برطانیہ سمیت عالمی سطح پر ایکسپورٹ کرتے ہیں اور یہ سب دیکھنا حیرت انگیز تھا۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ کی پاکستان میں سرمایہ کاری میں کافی دلچسپی ہے اور ہم اس کی حوصلہ افزائی کے لیے کام کر رہے ہیں۔باہمی تعلقات پر مزید بات کرتے ہوئے کلارا سٹرینڈہوئے نے مزید کہا کہ پاکستان کے ساتھ ہمارے قریبی ثقافتی اور تاریخی تعلقات ہیں۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کی تعداد 1.6 ملین ہے۔ یہ برطانیہ میں تارکین وطن کی سب سے بڑی تعداد ہے اور میرے خیال میں بہت سے پاکستانی لوگ بھی یہ نہیں جانتے ا سی طرح پاکستان میں ایک لاکھ برٹش پاکستانی بھی آباد ہیں۔ برطانوی ہائی کمیشن پنجاب کی سربراہ نے کہا کہ ہمارے باہمی مفادات بھی مشترک ہیں اور خاص طور پر پڑھے لکھے پاکستانی ہمارے لیے اچھے ہیں۔ ہمارے عالمی تعلقات بہت مضبوط ہیں اور مل کر ایک پائیدارمستقبل کی تعمیر درحقیقت اہم ہے . کلارا سٹرینڈہوئے نے کہا کہ پاکستان کے پاس بہت زیادہ صلاحیت موجود ہے لیکن یہ واقعی اہم ہے کہ پاکستان اب معیشت کے حوالے سے سمجھدار ی کے ساتھ فیصلے کرے۔ خاص طور پر پاکستان کو دوبارہ پٹری پر لانے اور مستحکم اور معیشت کو آگے بڑھانےکے حوالے سے حکومت کو سخت فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔برطانوی سفارت کار نے کہا کہ پاکستان کو آبادی کے لحاظ سے ڈیموگرافک چیلنج درپیش ہے۔ پاکستان کے پاس اس کے لیے روزگار اور صحت کی سہولیات جیسے وسائل نہیں ہیں۔ برطانیہ اور پاکستان کے درمیان تعلیم، خواتین اور لڑکیوں، آبادی، سرمایہ کاری، موسمیاتی تبدیلی، سیکورٹی، اسٹریٹ کرائمز اور دیگر شعبوں میں تعاون جاری ہے۔ دونوں ملکوں کے پاس ایک پاکستانی وراثتی سیاست دان ہے، سابق گورنر محمد سرور پہلے برطانیہ میں سیاست دان تھے۔ برطانوی سفارتکار نے پنجاب اور خصوصاً دارالحکومت لاہور کے بارے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا میری خوش قسمتی ہے کہ میں لاہور میں واحد برطانوی سفارت کار ہوں۔ مجھے اس بات سے اتفاق کرنا چاہیے کہ ’’جنہے لاہور نئیں تکیا جمیا نئیں‘‘ ( جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا نہیں ہوا) ۔ کلارا سٹرینڈ ہوئے نے کہا لاہور والے بہت ’’مہمان نواز‘‘ ہیں۔ میں اس ملک کے کسی بھی شہر کے بارے میں بات کر سکتی ہوں لیکن مجھے یہ ضرور محسوس ہوتا ہے کہ لاہور میں کچھ خاص ہے اور مجھے بہت فخر محسوس ہوتا ہے کہ مجھے یہاں نئے نئے تجربات ہوئے۔
اہم خبریں سے مزید