کراچی ( رفیق مانگٹ) ایک مسلمان لڑکا جو 1947ء میں مغربی پنجاب میں اپنے خاندان سے الگ ہوگیا تھا اور اسے مشرقی پنجاب میں سکھ خاندان نے اپنایا تھا ، آخر کار ایک ہندوستانی مورخ اور ایک پاکستانی یوٹیوبر کی کوششوں سے اسے ننکانہ صاحب میں اپنے خاندان کا سراغ مل گیا ، 3 میل کااتنا بڑا فاصلہ تھا جو 77 سالوں میں عبور نہیں کیا جا سکا۔ مہندر سنگھ گل کبھی بھی قریبی امرتسر،اٹاری سرحد یا حسینی والا سرحد کو عبور نہیں کر سکتا تھا۔ نقشے پر کھینچی گئی انمٹ ریڈکلف لائن ناقابل تسخیر اور اٹل تھی۔ وہ زوم پر اپنے خاندان کو دیکھ کر سسکیاں بھرتا رہا۔بھارتی اخبار ٹریبون میں نئی دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی پروفیسر نے ستمبر 1947ء کے قتل عام میں ضلع فیروز پور کی تحصیل زیرا کے گاؤں بلوکی کے ایک مسلمان خاندان کے دس سالہ محمد شفیع کی اپنے والدین،چار بھائیوں اور ایک بہن سے بچھڑنے کی داستان لکھی ہے۔ آج وہ دس سالہ محمد شفیع 87 سالہ مہندر سنگھ گل ہے ۔ مہندر سنگھ نے انکشاف کیا کہ اس کے والد کا نام چراغ دین تھا ، جو بھٹی راجپوتوں سے تعلق رکھنے والے دو دیہاتوں کا ایک گاؤں کا نمبرار تھا ، اور اس کی والدہ کا نام فاطمہ تھا۔ ہنگاموں کے دوران اسے بے دردی سے والدین سے الگ کردیا گیا، اس نے اپنی چھوٹی بہن کو نہر میں ڈوبتے دیکھا۔ننھے شفیع کو کئی بار گاؤں سے دوسرے گاؤں شفٹ کیا گیا ۔ پہلے ماکھو شہر کے قریب پدھری گاؤں لے جایا گیا، اور آخر کار اسے سرحدی گاؤں بنڈالہ لایا گیا جہاں اس کی پرورش سکھ خاندان نے کی اور اسے مہندر سنگھ گل نام دیا۔ اتفاق سے ایک پاکستانی یوٹیوب چینل نےپاکستان میں محمد شفیع کے گمشدہ خاندان ،ان کے دو بھائیوں اور ان کے بچوں، کے ساتھ ویڈیو انٹرویو کیا تھا جس سے معلوم ہوا کہ محمد شفیع اپنے والدین چراغ دین اور فاطمہ اور بھائیوں سے المناک طور پر بچھڑ گیا۔ یوٹیوبر عباس خان لاشاری سے بھارتی مصنفہ نے رابطہ کیا۔ دونوں نے مہندر سنگھ گل کے اہل خانہ کے ساتھ زوم ملاقات کا اہتمام کیا تھا، جو اس وقت ننکانہ صاحب میں مقیم ہیں۔ ایک بھائی کا انتقال ہو گیا تھا، لیکن اس کا بیٹا اپنے چاچا سے بات کرنے کے لیے بہت زیادہ بے چین تھا۔ چھوٹا بھائی شدید بیمار تھا، اور بڑا بھائی تقریباً اپنی قوت سماعت کھو چکا تھا۔ مہندر گل سسکیاں بھررہا تھا۔ سرحد پار سے بھائیوں اور کزنز کی جانب سے’شفیع، شفیع‘ کی آہوں اور سسکیوں کی صدائیں ریڈکلف لائن کی خاردار تاروں کو توڑنے کے لیے کافی بلند تھیں۔ اس کے بعد آنسو، چیخیں اور قہقہے تھے۔ پاکستان میں مہندر سنگھ گل اور ان کے خاندان کے درمیان جسمانی ملاپ کا انتظار ہے۔ کرتار پور راہداری زیادہ دور نہیں۔ اور نہ ہی ننکانہ صاحب۔