• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسودے میں آئینی عدالت کی تصدیق، حکومت اور پیپلز پارٹی نے تجاویز پیش کردیں، خصوصی کمیٹی کا ان کیمرا اجلاس آج پھر

اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں، مانیٹرنگ ڈیسک) حکومت کی طرف سے تیار کئے گئے آئینی ترامیم کے مسودے میں آئینی عدالت کی تصدیق ہوگئی.

 دوسری جانب آئینی ترامیم پر اتفاق کیلئے کوششیں جاری ہیں، حکومت اور پیپلز پارٹی نے تجاویز خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں پیش کردیں، خصوصی کمیٹی کا ان کیمرہ اجلاس آج پھر ہوگا.

ذرائع کے مطابق کمیٹی میں آئینی ترامیم پر کوئی اتفاق نہ ہونے سے ڈیڈ لاک تاحال برقرار ہے، چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ ترامیم کیلئے ہمارے پاس ممبرز پورے ہیں، لیکن تمام جماعتوں سے مشاورت چاہتے ہیں، جے یو آئی سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا پہلی بار مسودہ ملا، آئینی عدالت ہو یا بنچ لچک ہونی چاہئے.

 وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ یہ وہی مسودہ ہے جس میں وفاقی آئینی عدالت کی بات ہے جبکہ پی ٹی آئی رہنما بیرسٹر گوہرکا کہنا ہے کہ آئینی ترامیم کے مسودے کے خدوخال تو بتائیں کن آرٹیکلز میں کیا ترامیم کرنی ہیں،جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ کا کہنا ہے کہ آئینی ترامیم سے حکومت آئین کو متنازع بنارہی ہے، پارلیمنٹ کا اختیار ہے اکثریت سے ترامیم کی جاسکتی ہیں۔

 تفصیلات کے مطابق 26ویں آئینی ترمیم کیلئے قائم خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس جمعہ کو خورشید شاہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا ۔

 اجلاس میں مسلم لیگ (ن) پیپلزپارٹی، جے یو آئی، پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نےشرکت کی۔ اجلاس میں مجوزہ آئینی ترمیمی مسودے پر غور کیا گیا۔

 اجلاس کے بعد گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پی پی بلاول بھٹو نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کی تفصیلی میٹنگ ہوئی جس میں تمام جماعتوں نے رائے دی اور پیپلز پارٹی نے اپنے اوریجنل ڈرافٹ کی تجاویز کمیٹی میں پیش کیں جس میں آئینی عدالت سے متعلق امور ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ ڈرافٹ حکومت کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کے سامنے پیش کیا، اسکے علاوہ حکومت نے جو وکلا سے بحث کی اسکے نکات بھی اس کمیٹی میں پیش کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر قانون نے وکلا کے ساتھ ایک تفصیلی بحث کی اور اس کی تفصیلات بھی سامنے آئیں، اس حوالے سے جو وکلا کی تجاویز سامنے آئیں وہ بھی پیش کی گئیں۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں نے بھی اپنا موقف پیش کیا جبکہ مولانا فضل الرحمٰن نے بھی اپنا موقف دہرایا کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ اتفاق رائے سے مسودہ بنانا چاہتے ہیں۔

 انہوں نے بتایا کہ اجلاس میں وزیر قانون نے بتایا کہ انکے پاس دو تہائی اکثریت موجود ہے مگر وہ تمام سیاسی جماعتوں سے اس معاملے پر اتفاق رائے کیلئے یہاں بیٹھے ہیں۔ وزیر قانون کی بات کو سراہتا ہوں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ایک ایسے موقع پر جب شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس ہورہا ہے، میں بھرپور کوشش کررہا ہوں کہ اتفاق رائے قائم ہو۔ 

اس سے قبل جے یو آئی سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے خصوصی کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں اجلاس کے دوران آئینی ترمیم کا مسودہ پیش کرنے کی تصدیق کی۔ 

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اپنا ڈرافٹ اتحادی جماعت مسلم لیگ(ن) سے بھی شیئر کریگی اور امید ہے کہ بات چیت سے اتفاق رائے حاصل کیا جا سکے گا۔ 

انہوں نے کہا کہ ہم نے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے آئین میں موجود ماضی کے بگاڑ کو ختم کیا تھا لیکن اسکے باوجود 19ویں ترمیم میں عدالتی اصلاحات میں جو پارلیمان کا کردار تھا اسے ختم کردیا گیا، ہم تجویز کرتے ہیں کہ 19ویں ترمیم کو ختم کیا جائے اور واپس 18ویں ترمیم کو بحال کیا جائے، ججوں کی تقرری سینیارٹی، کارکردگی اور صحت مندی کی بنیاد پر ہو جہاں عدالتی کمیشن کا کردار ہوگا وہیں پارلیمنٹ کا بھی کردار ادا ہوجائیگا۔

انکا کہنا تھا کہ عدلیہ کو سیاسی طور پر تقسیم نہ کیا جائے، جج، جج ہوتا ہے اسے جج ہی رہنا چاہیے، ججز بھی اپنے عمل سے عوام کو مطمئن کریں کہ وہ غیرجانبدار ہیں، 25 اکتوبر کو اگر چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ ہونی ہے تو ہوجائیں مگر نظام کو چلنا چاہے، عدلیہ کا اعتماد بحال کرنا ہے۔

آئینی بینچ ہو یا آئینی عدالت یہ دونوں ایک دوسرے کے متبادل ہوسکتے ہیں اگر اس پر ہمارا تنازع ختم ہوجائے تو یہ کوئی بڑا ایشو نہیں ہے بات اصولوں کی ہے ہمیں عدلیہ سے یہ کام لینا ہے کہ آئینی اور عوامی مقدمات الگ الگ ہوجائیں۔ 

اجلاس کے بعد وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس میں تمام فریقین نے اظہار خیال کیا ہے، جوڈیشل پیکج پر جو ہماری تجاویز تھیں اور جو بار کی باڈیز نے دی تھیں، وہ ہم نے تحریری طور پر اجلاس میں رکھی ہیں۔یہ طے ہوا ہے کہ کل 12 بجے کے بعد دوبارہ بیٹھک ہو گی تاکہ یہ ہیجان اور تعطل ختم ہو۔

 انہوں نے کہا کہ یہ وہی ڈرافٹ ہے جس میں وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی بات ہے، جوڈیشل کمیشن کو کس طرح ہونا چاہیے، ججز کے احتساب کا نظام کیا ہو، انکی پیشہ ورانہ مہارت اور کام کی اہلیت بھی بنیاد ہونی چاہیے اور جو کام نہیں کرتے ان کیخلاف تادیبی کارروائی ہونی چاہیے جبکہ جب انہیں ہٹانے کا طریقہ کار وہی 209 کے تحت ہے۔ 

تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ ابھی تک کوئی اتفاق رائے نہیں ہوا، ہم نے نہ کوئی بات کی ہے اور نہ ہی زیادہ بات چیت ہوئی ہے۔

 صحافیوں سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم سمیت مولانا صاحب نے یہی کہا کہ ہم ڈسکس کیا کررہے ہیں، آپ نے رات کو فون کیا اور اتنی عجلت میں سیشن بلایا اور ہم آپکے پاس آ گئے۔ 

انہوں نے کہا کہ ہمیں کس چیز کو ڈسکس کرنا ہے کوئی خدوخال تو بتائیں کہ کن کن آرٹیکلز میں آپ نے کیا کیا ترامیم کرنی ہیں، ایک کہہ رہا ہے کہ میڈیا کو ریلیز ہونے والا ڈرافٹ جعلی ہے اور دوسرا کہہ رہا ہے کہ یہ صحیح ہے، آج بھی کسی نے پورا ڈرافٹ نہیں دیا ہے۔

 دریں اثناء بلاول بھٹو نے فضل الرحمٰن سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی جس میں آئینی مسودہ پر مشاورت کی گئی۔

اہم خبریں سے مزید