• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن
گزشتہ روز میری سالگرہ تھی، دن ہفتے مہینے سال جس تیزی سے گزرتے ہیں وہاں زندگی کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ خیر میں نے سوشل میڈیا پر اپنی سالگرہ کی پوسٹ لگا دی۔ دوستوں کے بہت سے کمنٹس آئے۔ میں چونکہ بائیں بازو کے نظریات رکھنے والا جانا جاتا ہوں اس لئے کئی کمنٹس میری نظریاتی سوچ کے حوالے سے بھی داغے گئے تھے۔ دلچسپ کمنٹ پیارے دوست اورمیرے کولیگ ہمراز احسن کا تھا انہوں نے کہا کہ عمر کی طبقاتی تقسیم پر کالم لکھ دو۔ میں نے کمنٹ کو مذاق میں اڑانے کی بجائے سنجیدگی سے اٹھ الیا۔ کہا کہ چلو آج اسی کو موضوع تحریر بناتے ہیں۔ گو کہ موضوع کی سیاسی ہیئت کو تو میں جان نہیں سکا البتہ مجھے سادہ سی بات ایسے سمجھ آئی کہ اپنے دوست مظہر ترمذی کا وہ مصرہ یاد آگیا کہ جو گزری عمر کا ایک نقشہ تو ضرور بیان کر دیتا ہے کہ عمراں لنگیاں پباں بھار کن لوگوں کی عمر پباں بھار TipToes پر گزرتی ہے۔ اس سے طبقہ تو بیان میں آگیا لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ مجھے پاکستان کی حکمران کلاس طبقے کی تصویر کشی پر اپنے دوست افتخار قیصر کی نظم کا مصرہ یاد آگیا کہ چہرہ تو وہی رہتا ہے تصویر بدل دی جاتی ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ طبقے کا تعلق عمر سے نہیں بلکہ پیدائش سے ہے۔ مزدور کے گھر پیدا ہونے والا بچہ کب طبقہ بدل پاتا ہے اور بالائی طبقے میں پیدا ہونے والا بچہ کب طبقاتی تقسیم کو تسلیم کرتا ہے۔ کم از کم 80 فیصد لوگ تو اسی تقسیم میں اپنے اپنے قید و حصارمیں عمر گزار جاتے ہیں۔ ہمارا دانش ور طبقہ تو ویسے ہی (میں یہاں لیفٹسٹوں کی بات کر رہا ہوں) طبقہ بدلنے کے خلاف پرچار کرتا رہتا ہے۔ میرے استاد محترم اور دوست گورنمنٹ یونیورسٹی کالج کے پروفیسر توقیر احمد بھی یاد آئے۔ وہ بھی اینٹی پراپرٹی پر ایمان رکھتے تھے۔ عمر کا زیادہ حصہ کرائے کے گھروں میں ہی گزارا ، میں نے جب بھی انہیں کہا کہ گھر خرید لیں تو کہتے تمہارے والد نے ہمیں یہ سبق کبھی پڑھایا ہی نہیں وہ بھی تو کرائے کے مکانوں میں رہے یا پھر سرکاری۔ تو مجھے اندازہ ہوا کہ میرے والد نے بہت سے ایسے جیسے شاگرد پیدا کئے لیکن میں ایسا نہیں نکلا ۔ جہاں صحافت اور کالم نگاری کی وہاں بزنس کیا تو وہ بھی پراپرٹی کا۔ اس لئے میں نے تو اینٹی پراپرٹی والوں کا ریکارڈ توڑ دیا۔ اب تو خیر کامریڈوں کو موقع ملتا ہے تو کہاں کسی سے پیچھے رہتے ہیں۔ اب اس آئیڈل ازم میں رہنے والے کامریڈ ناپید ہیں ۔ کئی تو ایسا سوچتے ہیں کہ جب انقلاب آئے گا تو دیکھیں گے جو بنایا ہے انقلابی سماج کی بخوشی نذر کردیں گے۔ بھلابرژوا سماج میں چند لوگ اپنا انقلابی رہن سہن کیسے رکھ سکتے ہیں۔ ویسے تو کئی لوگوں کا انقلاب انقلاب کرنا ایک کاروبار بھی ہے جس طرح مذہب والوں کی دوکانداریاں ہیں اسی طرح ان طبقاتی انقلابیوں کی بھی دوکانداریاں ہیں۔ اس لئے عمر کی طبقاتی تقسیم گھومتی پھرتی رہتی ہے اور طبقات میں عمریں بھسم ہو جاتی ہیں۔ لیکن عمر میں طبقات ختم نہیں ہوتے اس لئے طبقاتی تقسیم کی عمر تو ہو سکتی ہے لیکن عمر کی طبقاتی تقسیم نہیں۔ یورپ کی اشرافیہ تو کسی نودولتیے کو دو تین نسلوں تک اپنے کلب کا حصہ ہی تسلیم نہیں کرتی۔ زیادہ دور کیا جانا لیڈی ڈیانا کو ہی دیکھ لیں ملکہ نے کبھی اسے اپنے کلب کا حصہ تسلیم نہیں کیا تھا۔ بالآخر انجام ہم نے دیکھ ہی لیا ۔ ویسے یہ طبقاتی تقسیم اقتصادی اور سیاسی اصطلاح ہے بلکہ کلچرل بھی ہے۔ جب ہم اس اصطلاح کو ان مخصوص پیراؤں میں دیکھیں گے تو پھر تو ہر مشاہدے اور عمل کو سیاسی عینک لگ جائے گی۔ اس لئے ہم اس تقسیم کو ذرا اپنے طبقے میں ہی دیکھتے ہیں جہاں پروفیسر امین مغل جیسا دیوہیکل مینار علمیت اس طبقاتی تقسیم میں کہاں جگہ پائے گا۔ مجھے تو رشک آتا ہے کہ میرا حافظہ بھی امین صاحب کی طرح کا ہو جائے اور امیجنیشن بھی۔ تو میں سمجھوں گا کہ میں نے علم و دانش کا بالائی طبقہ جوائن کر لیا ہے۔ لیکن ہر میدان میں ہی طبقہ بدلنا یا اسکا تبدیل ہونا بڑا کٹھن کام ہے۔ میں بھی ایک پروفیسر کے گھر پیدا ہوا ، نارمل سی مڈل کلاس میں۔ پھر حالات نے پلٹا کھایا ذرا لوئر مڈل کلاس ہوگئی، پھر ایک اور پلٹا کھایا میں بی اور سی کلاس کی جیل کا قیدی بن گیا۔ جہاں جا کے طبقے کا ہوش جاتا رہتا ہے جب اس جیل والی کوئے یار سے نکلے تو یہ باہر والی سوئے دار پر آبیٹھے۔ یہاں بیٹھ کے ہم ہر طبقہ طبقہ کھیلتے ہیں۔ جیسے ہمراز احسن میرے ساتھ کھیل رہے ہیں اور مجھے طبقاتی ریسرچ اسکالر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن میں نے اس طبقاتی تقسیم میں کسی جگہ بھی فٹ نہیں ہونا خواہ میں درجنوں پراپرٹیوں کا مالک ہی کیوں نہ بن جاؤں کیونکہ میں ذہنی طور پر بالائی طبقے کا کبھی ممبر نہیں بن سکتا۔ اس لئے میری ہمراز احسن سے گزار ہے کہ مجھے اپنے ہی طبقہ کا حصہ سمجھیں۔ میں اپنے طبقے سے بے وفائی نہیں کر سکتا البتہ اس ٹھنڈی ہواؤں والے ملک میں اگر تھوڑی سرمایہ داری کی حرارت لے کر جسم و جاں اور عزت بچاکے آج کے ماہ و سال کو چھولیا ہے تو ہیپی برتھ ڈے کہہ دیجئے۔
یورپ سے سے مزید