شبیر خان
آپ نے اکثر لوگوں کے منہ سے ’کمفرٹ زون‘ کے الفاظ سنے ہوں گے اور ان کو اس سے نکلنے پر زور دیتے ہوئے بھی سنا ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ، یہ کمفرٹ زون کیا ہے اور اس سے نکلنا مقصود ہے تو کیسے؟
بہت سے ایسے نوجوان ہیں جو اپنا وقت اس جگہ گزارتے ہیں۔ جسے (خطہ آرام) کہتے ہیں جو نوجوانوں کی صلاحیتوں کا قتل اور اس کے ہنر کو زنگ آلود کرتا ہے۔ مثلاََ گھر میں صوفے پر نیم دراز ہوکر ٹی وی دیکھنا، صبح کی سیر کے بجائے نرم بستر کے مزے لینا، ہر دوسرے تیسرے دن مٹن کڑاہی، چکن بریانی، پیزا، کولڈ ڈرنک سے لطف اندوز ہونا، محنت و کوشش کے بجائے کام سے جان چھڑانا، ایک اچھی نوکری چاہنا اور یہ خواہش کرنا کہ زندگی بھر کوئی تکلیف، کوئی مسئلہ کوئی آزمائش نہ آئے۔
مجھے کوئی تنگ نہ کرے، محنت کرنے سے میں تھک جاتا ہوں۔ سبزیاں اور سلاد کھانے سے میرا من نہیں بھرتا، ورزش میں پسینہ بہانا خود کو خواہ مخواہ میں تھکا دینا ہے اور نوکری کے بجائے اپنی ذات کے لیے کام کرنا مجھے بہت بڑا رسک لگتا ہے۔ یہ اس قدر خطرناک جال ہے کہ اس میں پھنسنے والا انسان اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ کمفرٹ زون میں زیادہ عرصہ رہنا آپ کے لیے خطرناک ہے۔
یہ آپ کو اعتماد اور خوشی سے محروم کر دے گا۔ آپ کی زندگی کو نقصان پہنچائے گا۔ زندگی میں اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے، خود کو نکھارنے اور عام سے خاص بننے کے مواقع آتے رہتے ہیں لیکن ’’کمفرٹ زون‘‘ اس قدر لطف و سرور کا عادی بنا لیتا ہے کہ اسے چھوڑ ہی نہیں سکتے۔ پھر ایک وقت آتاہے کہ وہ نکما، تن آسان اور انتہائی سست ہو جاتا ہے۔ حقائق تسلیم کرنے اور ان سے لڑنے کی ہمت نہیں ہوتی۔
اس کی زندگی میں تبدیلی نہیں آتی۔اس زون میں رہنے والا کچھ نیا کرنے سے خوفزدہ رہتا ہے۔ ان کی زندگی میں نئے لوگ نہیں آتے کیوں کہ رشتے بنانے اور نبھانے کے لیے تین چیزیں درکار ہوتی ہیں۔ توجہ، وقت اور پیسہ۔ ہر رشتے کو توجہ دینی ہوتی ہے، اس کے لیے وقت نکالنا ہوتا ہے۔ شادی بیاہ اور غمی خوشی میں شرکت کرنی ہوتی ہے اور بوقت ضرورت پیسے بھی خرچ کرنے ہوتے ہیں لیکن ’’کمفرٹ زون‘‘ کا قیدی نوجوان یہ سب نہیں کرسکتا، کیوں کہ وہ آرام دہ زندگی گزارنے کا عادی ہوچکا ہوتا ہے۔
یہ زون نوجوان نسل کی صحت کو بھی متاثر کررہاہے۔ ٹی وی کے سامنے صوفے پر بیٹھ کر اور ایک ہاتھ میں پاپ کارن کا پیکٹ لے کر گھنٹوں گزارنا، واک نہ کرنا، کھانا اور سو جانا، تلی ہوئی چیزوں کے سہارے جینا اور اس جیسی بے شمار عادات کے نتیجے میں ان کی صحت خراب ہو جاتی ہے یہ قوت ارادی کو بھی کمزور کر دیتا ہے۔ اس کے اندر کچھ نیا کرنے کی ہمت نہیں ہوتی، اس لیے ہمت کی عمارت کو شکستہ کر دیتا ہے۔
اس سے نکلنے کا پہلا قدم یہ ہے کہ کچھ سیکھنے کی کوشش کریں۔ آپ میں اس سے نکلنے کی ہمت ہے تو نکلنے کی ہمت ہے تو اٹھیے اور اس کی قید سے باہر آجائیں۔ جب آپ اس کی قید سے آزاد ہوجائیں گے تونئے چیلنجز کے لیے تیا ر بھی ہوں گے۔ اس سے نکلنے کا پہلا قدم یہ ہے کہ کچھ نیا سیکھنے کی کوشش کریں۔ آپ بیٹھے بٹھائے امیر ترین شخص نہیں بن سکتے، اس کے لیے آپ کو اپنی ہمت جمع کرنی پڑے گی ، پورا زور لگانا پڑے گا۔
اپنی معلومات میں علممیں اضافہ کرناہو گا۔ نئی منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ تخلیقی صلاحیت کو جگانا پڑے گا۔جدید ٹیکنالوجی کو تعمیری کاموں میں استعمال کرنا پڑے گا۔ یوں مختلف طرح کے حالات کا سامنا کرنے کی بدولت آپ کے اندر مسائل حل کرنے کی صلاحیت آجائےگی۔ آپ کو جتنی بھی مشکلات کا سامنا ہو، جتنی بھی تنقید آپ پر کی جائے، آپ ان کو زندگی کا حصہ سمجھیں اور ان کا حل نکالنے کی کوشش کریں ۔ اپنے اندر نئی مہارتیں بھی پیدا کریں، جس سےنئے راستے کھلیں۔
اپنی زندگی کو جامد نہ ہونے دیں، اس میں نیا ولولہ، نیا جوش لے کر آئیں۔ کامیابی کی آرزو کو ناکامی کے خوف سے زیادہ مضبوط اور بلند تر ہونا چاہیے۔یہ مشکل نہیں ہے، تھوڑی سی توجہ اور مستقل مزاجی سے ممکن ہوسکتا ہے۔رکاوٹوں ، الجھنوں ، مسائل اور ناکامیوں پر توجہ دینے کے بجائے مقاصد کے حصول کو فوکس کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سیکھنے کا یہ سفر آپ کو ایک بہترین شاندار دائرے میں لے آئے گا جس کو’خطہ نمو ‘کہتے ہیں۔
نمو کا مطلب ہے قدم بہ قدم پروان چڑھنا۔ دنیا میں جتنی بھی ترقی ہوئی ہے اس خطہ کی وجہ سے ہوئی ہے۔ زندگی کا مقصد آپ کو آگے بڑھنے کی موٹیویشن دیتا ہے۔ یہ آپ کو ٹریک پر رکھتا ہے۔ کبھی آپ سمت کھو جائیں تو یہ آپ کو واپس ٹریک پر لاتا ہے۔ کبھی آپ کے پاؤں ڈگمگا جائیں تو یہ آپ کو دوبارہ سے ہمت دیتا ہے۔
اٹھیے، اپنا شمار دنیا کے دو فیصد ان خوش قسمت لوگوں میں کیجیے جو ’’کمفرٹ زون‘‘ کی سلاخوں کو توڑ ڈالتے ہیں۔ اپنے آپ کو دھکیلے دھکیلتے ’’Growth zone‘‘ میں لے آئیے کہ کامیابی کا راز بھی یہی ہے اور اگر ایسا نہیں تو پھر ایک دانا آدمی کی یہ بات یاد رکھیے کہ ’’اگر تم وہی کر رہے ہو جو ہمیشہ سے کرتے آئے ہو تو تمھیں ملے گا بھی وہی جو ہمیشہ سے ملتا آرہا ہے۔‘‘