مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
میرے نانا ابّا غلام مرتضیٰ خان اپنے دَور کے بڑے مایہ ناز، بہادر شکاری، تیر انداز، گھڑ سوار اور بہترین شخصیت کے مالک تھے۔ خاندان بھر کے لیے گویا ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے۔ تقسیمِ ہند سے قبل بھارت میں ان کی بڑی زمین داری تھی۔ جب پاکستان ہجرت کی، تو بڑی ہمّت، جواں مَردی سے کٹھن حالات کا مقابلہ کیا۔ وہ نمازی، پرہیز گار اور بہت خدمت گزار انسان تھے۔ مَیں نے ہمیشہ انھیں انتہائی محنت، دیانت اور لگن سے کام کرتے دیکھا۔
نانا جان ہم لوگوں سے مل کر بہت خوش ہوتے تھے۔ ہمیشہ سچ بولنے کی تلقین کرتے۔ ہم سب بھائیوں سے بہت محبت و شفقت سے پیش آتے۔ ہمیں اپنے شکار کے قصّے سناتے، بہادری کی مثالیں دیتے۔ اور اکثر یہ مثال ضرور دیا کرتے کہ ’’گیڈر کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔‘‘ شکل سے اگرچہ جاہ و جلال ٹپکتا، لیکن اندر سے انتہائی نرم دل تھے، ہمیشہ صلۂ رحمی اور درگزر سے کام لیتے۔
انھوں نے اپنی زندگی بڑی شاہانہ انداز میں گزاری۔ قیامِ پاکستان سے قبل اپنے دَور میں بھارت کی قومی ہاکی ٹیم میں شامل تھے۔ وہ اگرچہ آج ہمارے درمیان نہیں، لیکن اُن کی باتوں، حوصلہ افزائی ہی کی وجہ سے آج ہم اس مقام پر ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنّت الفردوس میں جگہ عطا فرما کر اُن کے درجات بلند فرمائے، آمین۔ (محمد حامد بن محمد یوسف)