عام طور پر دُنیا میں لوگوں کا ایک سال میں چار موسموں سے پالا پڑتا ہے، لیکن ہمارے خطّے کے عوام کو چار موسموں کے علاوہ ایک اور موسم سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے اور اس پانچویں موسم کو ’’جنگ کا موسم‘‘ کہا جاتا ہے۔ دُنیا کے باقی خطّوں میں پانچواں موسم تواتر سے نہیں آتا، جب کہ پاکستان اور بھارت میں یہ موسم اوسطاً ہر آٹھ سے دس برس بعد آجاتا ہے۔
اس موسم کے دوران کبھی تو جنگ کے بادل جلد ہی چَھٹ جاتے ہیں، کبھی دس سے پندرہ روزتک برستے رہتے ہیں اور بعض اوقات کسی مخصوص علاقے پر برس کر گزر جاتے ہیں، جیسا کہ کشمیر، سیاچن اور کارگل وغیرہ۔ مگر جنگ کے یہ بادل چَھٹنے کے بعد دوبارہ برسنے کی تیاریوں میں مشغول ہوجاتے ہیں اور وقتاً فوقتاً گرجتےبھی رہتے ہیں، تاکہ پڑوسی ممالک جنگی تیاریوں سے غافل نہ ہوسکیں۔
آج سے 24برس قبل جنگ کےگھنے بادل بھارت کی طرف سے پاکستان پرامڈ آئے تھےکہ بھارتی پارلیمنٹ پر پانچ دہشت گردوں نےحملہ کیا تھا۔ کہتے ہیں کہ وہ بادل بِن برسے چَھٹنے والے نہیں تھے، کیوں کہ بھارت نے ان پر اچّھی خاصی سرمایہ کاری کی تھی، مگر پھر کسی نہ کسی وجہ سے وہ بادل چَھٹ گئے اور دونوں ممالک کو جانوں کا تو نہیں، مگر مال و دولت کا بےپناہ خسارہ برداشت کرنا پڑا۔ اِس سے پہلے بھی ایک مرتبہ جنرل ضیاء الحق کے دَور میں اسی قسم کے جنگی بادل چھائے تھے، لیکن وہ بھی برسے بغیر ہی آگے بڑھ گئے۔
ماضی کے واقعات پیشِ نظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ایک مرتبہ پھر جنگ کا موسم آغاز ہونے والا ہے۔ قبل ازیں، بھارتی وزیرِاعظم، نریندر مودی نے جنگی ماحول گرمانے کی مُہم نہایت کام یابی سے چلائی اور پورے بھارت کو جنگی جنون میں مبتلا کردیا۔ بھارتی وزیرِاعظم نے اپنے عوام کی جنگ کے حوالے سے ذہن سازی کے لیے ہر قسم کا حربہ استعمال کیا اور بھارتی عوام کو ورغلا کر یہ باور کروا دیا کہ ’’پاکستان کا صرف چند گھنٹوں میں خاتمہ ممکن ہے۔
ہمارےایک حملےسے یہ مُلک چار حصّوں میں بٹ جائے گا۔‘‘ مزے کی بات یہ ہے کہ بھارتی عوام نے ان دعووں پر یقین بھی کرلیا اور ایک سو چالیس کروڑ افراد بغیر سوچے سمجھےاپنی حکومت کے پیچھے کھڑے ہوگئے۔ یعنی پوری بھارتی قوم ’’ہیپناٹائزڈ‘‘ ہوگئی۔ بھارت اپنی عسکری طاقت اور مال و دولت کے غرور میں اندھا ہوچُکا تھا اور یہ سمجھ رہا تھا کہ دُنیا کے تمام طاقت وَر ممالک اُس کے ساتھ ہیں، لیکن پھر7مئی سے 10مئی تک کی مختصر جنگ نے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا کہ اُسے پاکستان کے ہاتھوں سخت ہزیمت و شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
یاد رہے، بھارت کےخلاف جنگ سےقبل پاکستان کو اندرونی و بیرونی محاذوں پر کئی چیلنجز کا سامنا تھا۔ مُلک قرضوں میں ڈوبا ہوا تھا اور اس کا دیوالیہ یقینی نظر آرہا تھا۔ دُنیا کا کوئی مُلک یا ادارہ اِسے رقم دینے پر آمادہ نہیں تھا۔ مُلک میں لاقانونیت، شدّت پسندی عروج پرتھی اور ان حالات میں کسی بھی مُلک سے ہفتہ بَھر کی جنگ نہیں کی جاسکتی تھی، مگر اللہ کی قدرت دیکھیں کہ دُنیا کی چوتھی بڑی طاقت نے اس بدحال مُلک پرجنگ مسلّط کی اور جواباً اُسے ہی منہ کی کھانا پڑی اور اب مودی سرکار اپنے عوام کو دوبارہ یہ کہہ کر بےوقوف بنانے میں مشغول ہے کہ ’’ہم جنگ جیت گئے ہیں۔‘‘ لیکن، لگتا یہ ہے کہ اب بھارتی عوام اپنی حکومت کے فریب میں نہیں آرہے اور یہی مودی سرکار کے لیےسب سے بڑا مسئلہ ہے۔
اُسے اندرون و بیرونِ مُلک سخت رُسوائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دوسری جانب یہ بھارت کے خلاف پاکستان کی پہلی جنگ تھی، جو اُسے راس آئی۔ اس جنگ نے مُلک کو (وقتی طورپر) دیوالیہ ہونے کے خطرات سے محفوظ کردیا اورکئی ممالک، مالیاتی ادارے پاکستان کو قرض دینے پر بھی آمادہ ہوگئے۔ وہ دوست ممالک بھی، جو قرض خواہی کی وجہ سے کنارہ کش ہو رہےتھے، اب گلے لگا رہے ہیں اور یہ سب چار روزہ جنگ کا ثمر ہے۔ بھارت کے خلاف جنگ میں پاکستان کی عسکری مہارت دیکھ کردُنیا بَھر کے ممالک ششدر رہ گئے۔
اُنہیں یہ سمجھ ہی نہیں آرہی کہ ایک قرض میں ڈُوبے،دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوچار مُلک نے دُنیا کی چوتھی بڑی طاقت کو کیسے شکست سے دوچار کردیا، جب کہ بھارت کو اِس جنگ میں اپنی فتح کا اس قدرپُختہ یقین تھا کہ مودی سرکار نے ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی یہ باور کروا دیا تھا کہ بھارت محض چند گھنٹوں ہی میں پاکستان کو پتّھر کے دَور میں دھکیل دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ پاک، بھارت جنگ کے دوران ٹرمپ باربار یہ بیان دیتے رہے کہ دونوں ممالک اپنا دیرینہ مسئلہ خُود حل کریں۔
نیز، بھارت کے جنگی مِشن کی ناکامی کے بعد امریکا کی اس خطّے کا کنٹرول حاصل کرنے کی منصوبہ بندی بھی شدید متاثر ہوئی۔ اِس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صدر ٹرمپ نے فوراً پینترا بدلتے ہوئے پاکستان کی تعریفوں کے پُل باندھنا شروع کردیے۔ واضح رہے، مذکورہ منصوبے میں پاکستان اور ایران دونوں کو تباہ کرنا شامل تھا، مگر پھر بھارت کو ایسی ہزیمت اُٹھانا پڑی کہ اُس کا خطّے کے تھانےدار بنانےکا خواب ہی چکناچُور ہوگیا۔ جب کہ پاکستان کو اِس تاریخی کام یابی نے دُنیا بَھر میں ایک ممتاز و منفرد مقام پرلاکھڑا کیا کہ دُنیا ہمیشہ بہادر، جاں باز اور جرأت مند اقوام کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے، چاہے وہ اِبتلاؤں ہی میں کیوں نہ گِھری ہوں۔
اگر موجودہ معروضی حقائق کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے، تو اندازہ ہوتا کہ مستقبل میں دوجنگیں ناگزیر ہیں، جن سے بچنا تقریباً ناممکنات میں سے ہے، البتہ اِن کے وقت کا تعیّن انسانی غلطیاں کریں گی۔ اِن میں سے ایک جنگ پاکستان اور بھارت اور دوسری اسرائیل اور عالمِ عرب کے درمیان لڑی جائے گی۔ زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت ایک روز خطرناک جنگ میں اُلجھیں گے کہ ایک جانب ترقّی یافتہ ممالک برق رفتاری سےتعمیروترقّی کی نئی منازل طےکررہے ہیں، تودوسری جانب دونوں ممالک، خصوصاً بھارت اُسی رفتار سے دشمنی اور نفرت کے ریکارڈز قائم کررہا ہے۔
دونوں پڑوسی ممالک کی مجموعی آبادی پونے دو ارب کے قریب ہے، اِن کے بنیادی تنازعات میں مقبوضہ کشمیر، سیاچن اور سرکریک وغیرہ تو شامل تھے ہی، لیکن اب اِن تنازعات سے بھی بڑا تنازع (آبی تنازع) سامنے آگیا ہے، جو پاکستان کے لیے اُس کا بقا کا مسئلہ ہے کہ ہمارے پانی پر بھارت کی مکمل اجارہ داری ہے۔
بالفرضِ محال پہلے تین تنازعات حل ہو بھی جائیں، آبی تنازع باقی رہے گا اور پاکستان کو اپنی بقا کی خاطر بھارت سے جنگ لڑنی ہی پڑے گی، کیوں کہ بھارت نے پاکستان کے تمام دریاؤں کا پانی بند کرنے کا اعلان کررکھا ہے اور جواباً اگر پاکستان اپنے عوام کی زندگی، پانی کی خاطر تن، مَن، دھن کی بازی لگانے پر آمادہ ہے، تو یہ کوئی عجب بات نہیں۔
بہرکیف، پاکستان کو چاہیے کہ وہ معرکۂ حق میں فتح کے ثمرات سمیٹے ہوئے فی الفور دُنیا کو اس آبی تنازعے کی اہمیت سے آگاہ کرے۔ پاکستان اس مسئلےکو بڑی آسانی سے دُنیا میں ’’مارکیٹ‘‘ اور اقوامِ عالم کو قائل بھی کرسکتا ہے، تاکہ اگر اس مسئلے پر جنگ ہو، تو دُنیا کو پاکستان کی مجبوری اور اس کے مؤقف کا پہلے سے علم ہو اور یہ کام پاکستان کو زمانۂ امن ہی میں شروع کر دینا چاہیے کہ اگر پاکستان ایسا نہ کر سکا، تو اُسے مزید نقصانات کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
آبی تنازعےپر رائے عامہ ہم وار کرنے کے لیے پاکستان کو کسی بین الاقوامی کنسلٹنٹ فرم کی خدمات حاصل کرنی چاہئیں، تاکہ مؤثر پراپیگنڈا کیا جاسکے۔ یاد رہے، اِس وقت دُنیا پاکستان کا مؤقف توجّہ سے سُنے گی، جب کہ کچھ عرصے بعد پاکستان کے پاس اس مسئلےکو اجاگر کرنے کا وقت ہوگا اور نہ ہی کوئی مناسب فورم۔
ان ’’جنگی بادلوں‘‘ کو ’’ابرِ کرم‘‘ کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے کہ اگر مقدّر میں جنگ ہی لکھی ہو تو پھر مسائل کا حل جنگ ہی سے نکلتا ہے۔جب بنیادوں ہی میں نفرت، دُشمنی کا گارا بھر دیا گیا ہو، تو پھر امن معاہدے کارگر نہیں، محض وقت گزاری کا بہانہ ہوتے ہیں تاکہ مخالف کو کم زور کیا جاسکے۔ نوشتۂ دیوار پڑھے بغیر ہماری جاں بخشی ممکن نہیں۔ سو، موجودہ نسل کو قُربانی دینی ہوگی، تاکہ اگلی نسل خوش حالی، محبّت اور بھائی چارےکی فضا میں سانس لے۔
پاکستان اوربھارت کے مابین جتنے بھی تنازعات ہیں، اُنہیں سرِدست سردخانے میں پڑا رہنے دیں، سوائے آبی تنازعے کے اور سارا زور اس مسئلے کے حل پر لگا دیں اور دوبارہ جب بھی جنگ کے بادل برسنے لگیں، تو انہیں ابرِ کرم سمجھیں۔ جوکھیت بنجر،سیم وتھور زدہ ہو جاتے ہیں، اُن کا علاج پھر سیلاب ہی کرتا ہے اور بھارت کا علاج جنگ ہی میں پوشیدہ ہے۔
یوں سمجھیں، پاکستان کے پاس یہ آخری موقع ہے۔ حکومت اور میڈیا فی الفور دُنیا کو یہ بتانا شروع کردیں کہ بھارت کیسے ہمارا پانی روک رہا ہے۔ ہمارے حصّے کے دریاؤں پر سیکڑوں ڈیمز بنارہا ہےاور کس طرح اچانک پانی چھوڑ کر سیلابوں کے ذریعے تباہی پھیلا رہا ہے۔ اس وقت پاکستان میں ایک سو سے زائد نیوز چینلز ہیں،حکومت کو چاہیے کہ وہ انہیں ہرنیوزبلیٹن کے بعد پانچ سے دس منٹ کے لیے آبی تنازعے سے متعلق خبریں اور تجزیے پیش کرنے کی ہدایت دے۔
نیز، اِس اہم سنگین مسئلے کی آگہی سے متعلق ایک اسپیشل ٹاسک فورس اور میڈیا سیل تشکیل دے۔ یاد رہے، اگر پانی کا مسئلہ حل ہوگیا، تو کشمیر اور سیاچن کا مسئلہ بھی خود بخود ہی حل ہوجائے گا۔ یاد رکھنا چاہیے کہ مستقبل میں ہمارے اور بھارت کے درمیان تنازعات میں اضافہ ہی ہوگا، تو کیا ہمیں تب ہوش آئےگا، جب ہم پانی نہ ملنے کے سبب بحران، قحط کا شکار ہوجائیں گے۔ ہمیں اس قسم کے بُحرانوں سے دوچار دوسری اقوام سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔
ناقابلِ اشاعت نگار شات اور اُن کے تخلیق کار برائے صفحہ’’ متفرق‘‘
٭ ازدواجی تعلقات اور نسلِ نو،آج کے تعلقات (طوبیٰ سعید، اچھرہ، لاہور)٭ ثناء یوسف کا قتل، اپنا میٹر، اپنی ریڈنگ، عائشہ خان (ڈاکٹررحمت عزیز خان چترالی)٭ نوجوان: خوش فہمی، خُود پسندی کے شکار(حسیب نایاب منگی، شکارپور) ٭ اسلامی سال کا خیرمقدم ، سانحۂ کربلا (حافظ عمران احمد عمرانی)٭ امّاں کا آنگن (ثروت اقبال)٭ اُردو اور رحمت عزیز چترالی کی خدمات (محمّد ظہیر الدین خان)٭ حق تلفی (کاشف شمیم صدیقی)٭ عالمی یومِ مہاجرین (تصدیق احمد صدیقی ایڈوکیٹ) ٭ پی او بی، آنکھوں کااسپتال (ایس شاہد عالم، کراچی) ٭برائےگوشہ برقی خطوط، جھونپڑیوں کا جنگل (خواجہ تجمّل حسین، نارتھ کراچی، کراچی) ٭حافظ یحییٰ سنوار(سونیا عباس علی قریشی، حیدرآباد)٭ ابتدائی طبّی امداد، یومِ دفاع(زہرا یاسمین، کراچی) ٭اقبال کا تصورِ مردِ مومن (چوہدری قمر جہاں علی پوری، لوہاری گیٹ، ملتان)٭ پاکستان میں مذہبی سیاحتی مقامات (مدثر اعجاز، لاہور)٭ رُوپہلے پردے کا چاند (جبیں نازاں، نئی دہلی، بھارت)٭ دنیا کو تباہی سے بچائیں (قاسم عباس، ٹورنٹو، کینیڈا)٭ عشرۂ مبشرہ، تقویٰ (صدف فیصل)٭ ہاکی، عروج سے زوال تک (محمد اقبال شاکر، میاں والی)٭ جشنِ آزادی اور عوامی توقعات، تجارت کے سنہری اصول، یومِ دفاعِ وطن (پروفیسر حکیم سید عمران فیاض)٭ منہ سے نکلی بات (نائلہ، رضا، کراچی)٭ ساس، بہو کی لڑائی، خفیہ محرکات(عبدالحمید گلشن قادری کرم پوری)٭ جنم ہی جرم ٹھہرا(تحریم فاطمہ) ٭بچّوں کی حوصلہ افزائی (صبور مشتاق، رمضان گارڈن، شومارکیٹ، کراچی) ٭ جس دھج سے کوئی مقتل گیا، سیرت النبیﷺ کی ترویج میں اے آئی کا کردار، اجدادِ مصطفیٰﷺ (ارسلان اللہ خان، حیدرآباد)٭ قائد کا پاکستان، تعبیر سے حقیقت تک (ڈاکٹر محمد ریاض علیمی، نیو کراچی، کراچی)٭ کتاب ہنگامِ سفر پر لُطف اندوز تبصرہ (ظفر اقبال) ڈگری یا ذہنی سُکون (اریبہ سہیل، کراچی)٭ ادارے کی کہانی، اس کی زبانی (مصباح طیب، سرگودھا) ٭ موسمیاتی تبدیلی، دنیاکا پسندیدہ مُلک ،پینشنرز، نادرا کی قطاروں میں، حیاتی تصدیق نامہ(صغیر علی صدیقی، کراچی) ٭یومِ آزادی اور تجدیدِ عہد کا دن (حافظ بلال بشیر، چکوال) ٭آزادی کے مقاصد(بنتِ صدیق کاندھلوی، کراچی) ٭انٹرنیٹ کے تقاضے (راشدہ صدیق، چاہِ سلطان، راول پنڈی) ٭ طوفانی بارشیں اور ہماری ذمّے داری (اریبہ گُل) ٭ ’’بنو قابل‘‘ کے ثمرات، آزادی، نعمتِ آزادی، تجدیدِ عہد، سندھ میں تعلیم، کاروبار، حیا و حجاب، غزہ ،کرب میں (صبا احمد، کراچی)٭ صحت مند معاشرے کے لیے صحت کی سہولتیں(شفیق حسین وسان، کوٹ ڈیجی، ضلع خیرپورمیرس ٭ نہم کا رزلٹ، فارم سینتالیس، گنبد و مینار (امجد محمود چشتی، میاں چُنوں) ٭ پا سے پا تک (شاہدہ محمود) ٭ بیٹی، گھر چلی (حسیب اعجاز عاشر) ٭ یوم ِآزادی مبارک، ولادتِ باسعادت (قاضی جمشید عالم صدیقی، علامہ اقبال ٹاؤن، لاہور) ٭ سرزمینِ پاکستان (افروز عنایت) ٭ سنو اے قائدِاعظم (سعید احمد خانزادہ، ضلع شہید بے نظیر آباد، سکرنڈ) ٭ خطوط کی اہمیت (صائمہ فرید) ٭ فرق (بلقیس متین، کراچی) ٭انسانیت کا تقاضا (سید ذوالفقار حسین نقوی، کراچی) ٭ رحمت کی آمد (جاوید سیہوانی) ٭ کیا ہم آزاد ہیں؟ (بنتِ اسماعیل) ٭ نقد و نظر (بشیر کاشف) ٭ نجی اسکولوں کی لوٹ مار، پانی کا بحران (محمد شاہد اعجاز، شمیم یوسف، گلزار ہجری، کراچی) ٭ مچھلی کے شکار کی یادیں (محمد قیوم شیخ، کورنگی، کراچی) ٭ آج ہم یتیم ہوگئے (محمّد عارف قریشی، بھکر)٭میجر عزیز بھٹی، نوبیل پرائز کا بانی، سول و فوجی اعزازات (بابر سلیم خان، سلامت پورہ، لاہور) ٭ اُردو زبان، ٹیپو سلطان (محمّد صفدرخان ساغر، محلہ شریف فارم، راہوالی، گوجرانوالہ) ٭ اخبار بینی کا سلسلہ (سیّد اطہر نقوی) ٭ میاں چُنوں کی زرخیز زمین (لیاقت علی منہاس)۔