راحت کو نین حسن
دراز قد، سانولا رنگ، گھنے سالٹ اینڈ پیپر بال، چھوٹی، مگر چمکتی، سوچتی بھوری آنکھیں، دل کش مسکراہٹ، دل فریب قہقہے، اور پُرکشش گہری آواز۔ ابّا کی شخصیت ایسی مقناطیسی تھی کہ کسی بھی محفل میں نظر انداز نہ ہو سکتی تھی۔ اُن کا والہانہ پن، گرم جوشی ہرایک کو گرویدہ کرلیتی۔
ذہانت، سخاوت، دین ودنیا کا علم، وسیع النظری، اصول پسندی۔ اور اِن تمام صفات کے ساتھ، سب سے بڑھ کراُن کا شیوہ ’’انسانیت‘‘۔ ایک انسان کا اتنی صِفات سے متصف ہونا، بےشک اُس کی ذات پر اللہ کا خاص کرم ہی ہو سکتا ہے۔
ہماری چھوٹی پھوپی اُمِ عمّارہ، جو خُود ایک ممتاز مصنفہ، افسانہ نگار تھیں، لکھتی ہیں کہ ’’بھائی نے صحافت انگریزی میں کی اور شاعری اُردو میں۔ کم عُمری ہی میں مشرقی پاکستان کے نام وَرصحافیوں میں اپنا مقام بنا لیا۔ ای۔ پی۔ یو۔ جے (ایسٹ پاکستان یونین آف جرنلسٹ) کےکئی سال صدررہےاورپھر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے نائب صدر بھی منتخب ہوئے۔
ڈھاکا ٹائمز(1961ء) کے مدیر کی حیثیت سے آزادانہ کام کیا۔ اس اخبار کو بائیں بازو کے ترجمان کی حیثیت حاصل تھی اور پاکستان کے علاوہ پڑوسی مُلک میں بھی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ لکھنے اور بولنے کے دھنی تھے، ہر جگہ ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے۔ زیادہ دولت نہیں کمائی، مگرعزت خُوب کمائی۔ شان داریونینئسٹ تھے۔ بات کرنے کا سلیقہ ہی نہیں آتا تھا، بات منوانے کا ڈھنگ بھی جانتے تھے۔ وہ ایک پارس پتھر تھے، جو قریب سے گزرا، سونا ہی بنا۔‘‘
مجھے پتا چلا کہ ابّا پر ایک کتاب شائع ہوئی ہے، تو دلی تسکین ہوئی اور جب احمد زین الدین کی مرتب کردہ کتاب ’’صلاح الدین محمد: شخصیت اور شاعری‘‘ ہاتھوں میں لی اوران سے متعلق مختلف لوگوں کی آراء، تاثرات پڑھے تو اللہ کا بہت شُکرادا کیا۔ یوں بھی رب سے ہر وقت دُعا مانگتی ہوں کہ ابّا کے درجات بلند ہوں، اُنھیں دنیا میں توکام یابی عطا ہوئی، اللہ کریم آخرت میں بھی سُرخ رُو کرے۔ ہم سب بہن بھائیوں کی، ابّا کی شاعری کو، کتاب کی شکل دینےکی خواہش تب سےہے،جب وہ حیات تھے، مگر اب جب کہ وہ اس جہاں میں نہیں رہے، اس خواہش نےشدت اختیارکرلی ہے۔
بارہا سوچا، اُن کےبارے میں کچھ لکھوں، اُن کی شاعری کے بکھرے موتی سمیٹ کرایک مالا پرو دوں، لیکن بوجوہ نہ کرپائی۔ بہرکیف، آج کچھ ہمّت کر ہی ڈالی ہے۔ ابّا کا حلقۂ احباب متنّوع اور وسیع تھا۔ بےحساب، لاتعداد لوگ اُن سے فیض یاب ہوئے۔ ہم نے بچپن سےسُناکہ ابّا کی، ڈھاکا یونی ورسٹی میں اُردو زبان میں ماسٹرز میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن تھی اور پھر چند سال بعد امّاں نے بھی ٹاپ کرنے کا اعزاز حاصل کیا، حالاں کہ تب فرسٹ کلاس نایاب تصوّر ہوتی تھی۔ ابّا ماسٹرز کے دوران بھی کام کررہے تھے۔
اُن سے پوچھتے کہ ’’یہ پوزیشن کیسے حاصل کی؟‘‘ تو جواب ہوتا۔ ’’ہمیں سلیبس وغیرہ کا زیادہ پتا نہ تھا، بس رات واپسی پر روزانہ گھر آکر لاتعداد فیری ٹیلزکا ترجمہ کرلیتے۔ یوں سمجھو، ساری تیاری اِسی ایک مشغلے پرمبنی تھی۔‘‘ ابّا کی مثبت سوچ، نظریات وخیالات اور ژرف نگاہی کے پسِ پردہ کہیں نہ کہیں یقیناً اِن فیری ٹیلز کا ہاتھ تھا۔ اور شاید اسی لیے اُن کے ساتھ گفتگو، ہم میں سے بیش ترکو تازہ دَم کرنے کے ساتھ بہت معلوماتی، دل چسپ بلکہ سحرانگیز لگتی تھی۔
دوسروں کی خوشی میں خوش ہونا، اپنے علم سے دوسروں کو مستفید کرنا، دل کھول کر پذیرائی، حوصلہ افزائی اور ہمیشہ پُرامید رہنا۔ یہ سب جتنا سادہ، آسان لگتا ہے، درحقیقت ہوتا نہیں۔ ابّا کی مہمان نوازی، دریادلی کےبھی کیا کہنے۔ بڑا دل، کُھلاہاتھ اورہرحال میں اونچی پرواز۔ اِسی لیے میرے سسرال میں ایک بزرگ خاتون، جو خود ایک ممتاز، قابلِ احترام شخصیت ہیں، ہمیشہ مجھے’’شہنشاہ کی بیٹی‘‘ کے لقب سے پکارتی ہیں۔
ابّاکی شاعری میں ذخیرۂ الفاظ (یعنی ڈکشن) ہم جیسوں میں کم مائیگی کا احساس اجاگر کرتا ہے۔ اُن کےکلام کوگرچہ وہ پذیرائی، شہرت نہ ملی، جس کے وہ حق دار تھے (اور اِس کی واحد وجہ اُن کے کلام سےناواقفیت اورعدم رسائی ہے) ابّا کے نظریات، شاعری، فلسفۂ حیات سے میرے ہم عُمراکثر لوگ ناواقف ہیں اور اُس میں قصور شاید اُن کا اپنا ہی تھا۔
دراصل، فکرِمعاش کے ساتھ اُن کی شان بےنیازی نےاُنہیں اپنی ذات یا کلام پرتوجّہ دینےکی فرصت ہی نہ دی۔ مگر حالات چاہے کیسے ہی کیوں نہ ہوں، اُنہوں نےسوچ پر پہرے بٹھائے، نہ ہی کبھی نااُمید ہوئے۔ فکرمند بھی نظر آئے تو بات کرنے پر ہمیشہ اللہ کی ذات سے پُراُمید پایا۔
ہم میں سے کسی کا بھی رزلٹ آتا، تو اکثر سفر میں ہونے کے باوجود امّاں کو فون کرکے تلقین کرتے کہ رزلٹ کی وجہ سے کبھی بچّے کی تذلیل نہ کیجیے گا۔ اپنے اپنے وقت پر سب سُرخ رُو ہوں گے اوروقت نے یہ بات ثابت کردی۔ جب مَیں پریپ کلاس میں تھی، تو میری بڑی بہن نے اپنی محنت وقابلیت سے ڈبل پروموشن لی، جب کہ میرارزلٹ ’’ویری پوور‘‘ آیا۔ تو ابّا مُسکرائے اور سو روپےکا نوٹ تھما کے گود میں اُٹھا لیا۔ ’’چلو، ہم اپنی بیٹی کو ’’ویری رِچ‘‘بنا دیتے ہیں۔
ان کی اِسی محبت و اعتماد نے ہمیں تھوڑا باغی، نڈر کردیا۔ پھر کبھی کسی محرومی کااحساس ہوا،نہ نالائقی کا۔ ہمیشہ وہی کیا، جودل نے کرنا چاہا۔ کیمبرج کلاس میں پہنچی تواپنی بہن کےنقشِ قدم پرچلتےہوئےاُسی اسکول کی ہیڈ گرل بنی۔ سچ یہ ہے کہ ابّا کی مثبت سوچ، روشن خیالی نے ہم سب بھائی بہنوں کو بااختیار بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ شادی کے بعد ابّا اکثر اسلام آباد ہمارے گھر آیا کرتے تو پیار سے ہماری جوڑی کو ’’توتا، مینا کی جوڑی‘‘ کہتے۔ اُن کا ماننا تھا کہ ’’محبت میں بہت طاقت اور برکت ہوتی ہے۔‘‘
ہماری امّاں بانو اختری، نہ صرف خاندان، عزیز و اقارب، بلکہ اپنے اسکول میں بھی (جہاں وہ مسز صلاح الدین کے نام سے جانی جاتی ہیں) بڑی پُروقار، ہردل عزیز ہونے کے ساتھ ایک آہنی شخصیت تصوّر کی جاتی ہیں۔ خُود ان کے مطابق، ان کی شخصیت کی تعمیرمیں سب سے بڑا ہاتھ ابّا ہی کا ہے۔ دونوں کی ایک مشترکہ خصوصیت یہ رہی کہ اپنے اپنے خاندان میں اہم ستون کی حیثیت رکھتے، علمیت و قابلیت کے سبب ہمیشہ صائب الرائےتسلیم کیےگئے۔
مجھے وکالت، کارپوریٹ پریکٹس کےبعد پبلک سروس جوائن کرتے ہوئےابّا کے دو مشورے ہمیشہ یاد رہے۔ ایک یہ کہ قلم کبھی کسی کو نقصان پہنچانے کے لیے نہیں، دفاع کے لیے استعمال کرنا، اور دوم، جو لوگ تمہارے اردگرد ہوں، اگرگُڈوِل نہ جنریٹ کرتے ہوں، تو دُوری اختیار کرلینے ہی میں عافیت ہے۔ حق، سچ کی جنگ بہت کٹھن ہوتی ہے۔ سراہنے والوں کی تعداد کتنی ہی کیوں نہ ہو، اصول پسندی آزمائشوں ہی میں گھیرے رکھتی ہے۔ لیکن ابّا سے یہی سیکھا کہ کام یابی، ناکامی سے قطع نظر، کسی طرح کی بھی مخالفت کے باوجود مقصدیت کے ساتھ جدوجہد، جستجو شرط ہے۔
اِخلاص، نیّتوں کو پاک، ارادوں کو مضبوط رکھتا ہے۔ ؎ وہ بےداری کیسے آئے…جب ساری بےدار نگاہیں…مستقبل کے آئنے میں…سب سے پہلے خود اپنا مستقبل دیکھیں…درد سے پہلے درد کا اپنے حاصل دیکھیں۔ اچھی یادیں بھی آپ کی رفیق بن جاتی ہیں۔ اُن کو دہرانے سے لطف میں کبھی کمی واقع نہیں ہوتی بلکہ چاشنی میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے۔ ابّا سے متعلق جب ہم نے اپنی بہنوں، بھیا سے یہ سوال کیا کہ اُن کی نظر میں ابّا کی کون سی ایسی خصوصیت ہے، جس کا ذکر ضروری ہے، تو بڑی آپا سعدیہ صلاح الدین، جنھوں نے ابّا ہی کا پیشہ، صحافت اپنایا، برجستہ بولیں۔
’’ابّا کی سب سے پیاری بات، ان کی آفاقیت تھی۔‘‘ اورپھر اُس لوری کے اشعار گنگنائے، جو ابّا بچپن میں بڑی لے میں سُناتے تھے۔ ساری دنیا اپنا گھر ہے…مل کر اِسے سجاؤ … آپا دھاپی چھوڑکےبچّو… پیارکےدیےجلاؤ…کیسا غصّہ، کیسی خفگی، کیسی مارکٹائی…جو پڑتے ہیں ان باتوں میں… وہ شیطان کےبھائی…اچھی اچھی باتیں سیکھیں …سچائی کومانیں…جوسچے ہیں اس دنیامیں… اُن کو اپنا جانیں۔‘‘
بھیا، نجف یاورخان، جن کا تعلق شعبۂ تدریس سے ہے،کہتے ہیں۔ ’’مَیں سوچتا ہوں، لہٰذا مَیں ہوں۔‘‘ اُن کے خیال میں ابّا کی شخصیت کو اس سے زیادہ موزوں طریقے سے بیان نہیں کیا جا سکتا، لیکن اُن کے نزدیک ابّا کی سب سے نمایاں خصوصیت، اُن کا کنبے کے سربراہ، سرپرست کی حیثیت سے خاندان بھر کا معاشی ستون بنے رہنا تھا۔ دو کٹھن ترین آزمائشوں(ہندوستان اور پھر پاکستان کی تقسیم)سے گزر کر بھی وہ ثابت قدم رہے۔ نہ صرف اہلِ خانہ کی کفالت کی، وسیع خاندان کےبیش تررشتےداروں کی ذمّے داریوں کابھی بیڑا اُٹھایا اور یہ سب کچھ کسی وراثت، سرمائے کے بغیر کیا۔
چھوٹی آپا، صولت آرا، جو تیسرے نمبر پر اور ایک بزنس وومین ہیں، کہتی ہیں۔’’ابّا کا ہر ایک کے ساتھ یک ساں برتائو، خواہ وہ امیر ہو یا فقیر، مساواتی سوچ کا نمونہ تھا اوراُن کا یہ کہنا کہ تمہاری اُڑان کا تعلق تمہاری سوچ سے ہے کہ صرف سوچ کی بندش ہی تمہارے خوابوں کی راہ میں حائل ہوسکتی ہے۔‘‘عُمر بھر مشعلِ راہ ثابت ہوئے۔ توصیف سلمی، جو کیمیکل انجینئر، سائنس دان ہیں۔ اُن کے نزدیک ’’ابّا غیرمعمولی شخصیت کےمالک تھے، جو تخیّل کی فراوانی، بھرپور توانائی کے سبب میرے لیے ہمیشہ ایک ایسا معمّا رہے، جو ہنوزحل طلب ہے۔
وہ شاید زندگی کے تمام ہی رنگوں سے ہم آہنگ تھے۔‘‘ مہر افروز، جو میرے بعد ہیں اور چھٹے نمبر پر آتی ہیں۔ ایک اسکول میں معلمہ ہیں۔ اُنہیں ابّا کی قرات، مسحور کُن آواز میں قرآن کی تلاوت نے سب سے زیادہ متاثر کیا۔ ابّا کی اُن کومحنت کی نصیحت کے ساتھ ہمیشہ خوش رہنے کی تلقین، ہرحال میں ہمّت بندھاناخاصی اہمیت کا حامل ہے۔ ثروت صلاح الدین کانمبرساتواں ہے، اُنہوں نےقانون کی تعلیم حاصل کی۔
اُن کےخیال میں ’’ابّا اپنے وقت سے بہت آگے تھے۔ اُن کے تجزیوں، تبصروں سے اُن کی بصیرت ودانائی جھلکتی تھی، جو گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ہم پرعیاں ہوئی۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے۔ بیٹا!صرف قانون کی سمجھ کافی نہیں، ادب، فلسفہ اور تاریخ پڑھنا بھی بہت ضروری ہے۔ ابّا سے بات کرکے ایسا لگتا کہ ہم دنیا میں کچھ بھی کرسکتے ہیں۔‘‘ اور سارہ صلاح الدین، ہماری سب سے چھوٹی بہن، جو آئی ٹی اسپشلسٹ ہیں، کہتی ہیں۔ ’’ابّا کی کھنکھناتی آواز میں اِک پُرکشش تاثیرتھی، اُس پر ان کا والہانہ پن ایک برقی طاقت رکھتا تھا۔ ہم کلام ہونے پراُن کی گرم جوشی، ایسی محبت واپنائیت کا احساس اُجاگر کرتی کہ بلاوجہ ہی اِترانے کو دل کرتا۔ ایسے کتنے لوگ ہوں گے، جو خُود سے زیادہ سامنے موجود شخصیت کو اہمیت، احترام اور توجہ دینا جانتے ہوں۔‘‘
بحثیت ایک بہترین انسان، مُشفق باپ، جو اقدارو روایات اُنہوں نے ہمیں سونپیں، وہ ہماری زندگی کا بہترین اثاثہ،متاعِ حیات ہیں۔ سات بیٹیاں اور ایک فرزند (سب اپنی سوچ وفکر میں وہی جدت رکھتے ہیں) آٹھ بچّوں کی پرورش میں بےشک امّاں نے بھی کٹھن مراحل، نشیب وفراز دیکھے، لیکن یہ اللہ کے فضل وکرم کے ساتھ ہمارے والدین کی سچی محبّت، خلوص، تعلیم پر توجّہ و ترجیح اور منفرد تربیت ہی کا نتیجہ ہے کہ ہم سب آج بہت مطمئن قلب وضمیرکے ساتھ، خوش حال زندگیاں گزار رہے ہیں۔