لندن (سعید نیازی) لندن کے نواحی علاقے ووکنگ میں گزشتہ برس قتل کی جانے والی 10 سالہ سارہ شریف کے قتل کے الزام میں اس کے والد عرفان شریف، سوتیلی والدہ بینش بتول اور چچا فیصل ملک کے خلاف لندن کی کریمنل کورٹ میں مقدمہ کا آغاز ہو گیا۔ اس موقع پر عدالت کو بتایا گیا کہ عرفان شریف نے گزشتہ برس سارہ کے قتل کے بعد پاکستان پہنچ کر جب پولیس کو اس واقعہ کی اطلاع دی تھی تو اس وقت اعتراف کر لیا تھاکہ اس نے سارہ شریف کو مارا ہے۔ عرفان شریف، اہلیہ ، بھائی اور اپنے پانچ بچوں کے ہمراہ 9 اگست کو پاکستان روانہ ہو گئے تھے جس کے بعد برطانوی پولیس کی درخواست پر پاکستان میں پولیس نے ان کی تلاش شروع کی تھی تاہم ستمبر میں تمام افراد برطانیہ واپس آگئے تھے۔ گیٹ وک ائرپورٹ پر اترتے ہی پولیس نے انہیں حراست میں لے لیا تھا اور قتل کا الزام عائد کیا تھا، ان پر قتل کے علاوہ 16دسمبر 2022سے 9اگست 2023تک سارہ کی موت کا سبب بننے یا اس کی اجازت دینے کا الزام بھی ہے۔ پیر کو مقدمہ کی سماعت کا آغاز ہوا تو پراسیکیوٹر بل ایملن جونز کیو سی نے عدالت کو بتایا کہ جس حالت میں سارہ شریف کی لاش ملی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس پر کئی ہفتوں سے سنگین تشدد اور جسمانی حملے کئے جا رہے تھے۔ اس کے جسم پر اندرونی اور بیرون چوٹیں تھیں ہڈیاں بھی ٹوٹی ہوئی تھیں۔ پاکستان سے کی جانے والی کال آٹھ منٹ اور 34 سیکنڈ کی تھی جس میں عرفان شریف نے پولیس کو بتایا کہ سارہ شرارتی تھی جس کے سبب وہ اسے مارا کرتے تھے لیکن میں اسے قتل کرنا نہیں چاہتا تھا لیکن میں نے اسے کچھ زیادہ مار کر کھو دیا ہے۔ پراسیکیوٹرز نے کہا سارہ شریف کو صرف مارا پیٹا نہیں گیا بلکہ اس کے ساتھ سلوک خاصا سفاکانہ اور خوفناک تھا۔ جیوری کو یہ بھی بتایا گیا کہ سارہ کی لاش پولیس کو بنکڈ بیڈ کے نچلے حصہ سے ملی تھی جس پر رضائی پڑی ہوئی تھی لیکن حقیقت میں وہ مر چکی تھی۔ مقدمہ کی سماعت 9 ہفتوں تک جاری رہے گی۔