اسلام آباد (انصار عباسی) حکمران سیاسی جماعتوں کے اندیشوں کے برعکس، 25؍ اکتوبر کے بعد کی سپریم کورٹ کوئی ’’مہم جوئی‘‘ نہیں کرے گی۔ یہ وہ بات ہے جس پر سیاسی رہنمائوں کے درمیان بحث و مباحثہ ہو رہا ہے۔
ایک باخبر ذریعے کا کہنا ہے کہ یہ بات ایک ماہر قانون نے کچھ ایسے اعلیٰ سیاسی رہنمائوں کو بتائی ہے جو اِس وقت اعلیٰ عدلیہ میں تقرریوں کے حوالے سے اصلاحات اور وفاقی آئینی عدالت کے قیام کیلئے آئینی پیکیج پر مذاکرات میں مصروف ہیں۔ ذریعے کا کہنا تھا کہ یہ ماہر قانون اعلیٰ عدلیہ کے ججوں تک رسائی رکھتا ہے۔
دی نیوز نے اس ماہر قانون سے رابطہ کیا لیکن اس نے صرف اس شرط پر اس بات کی تصدیق کی کہ اُس کا نام سامنے نہیں لایا جائے گا۔
اس ماہر قانون نے افسوس کا اظہار کیا کہ سپریم کورٹ کے کچھ ججوں کو غیر ضروری طور پر متنازع بنایا گیا ہے۔ اگرچہ سیاست، میڈیا اور قانونی برادری میں کئی لوگ ریزرو نشستوں کے مقدمے کے فیصلے کو کمزور سمجھتے ہیں لیکن ذریعے کا اصرار تھا کہ سپریم کورٹ 25؍ اکتوبر کے بعد کوئی ’’مہم جوئی‘‘ نہیں کرے گی۔
خصوصی نشستوں پر سپریم کورٹ کے 12؍ جولائی کے فیصلے کے بعد، حکومت کو ڈر ہے کہ سپریم کورٹ 8؍ فروری کے عام انتخابات کا آڈٹ کرے گی تاکہ پی ٹی آئی کیلئے راہ ہموار کرنے کی خاطر شہباز شریف حکومت کو ہٹایا جا سکے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے کچھ رہنما بھی 25؍ اکتوبر کے بعد کی سپریم کورٹ سے یہی توقع رکھتے ہیں۔
حکومت کا خوف اس وقت مزید بڑھ گیا جب سپریم کورٹ کے 8؍ ججز نے 14؍ ستمبر کو ریزرو نشستوں کے فیصلے پر وضاحت جاری کی۔ یہ وہ وقت تھا جب حکومت اور اس کے اتحادی پارلیمنٹ میں آئینی ترمیمی پیکیج لانے کیلئے تیار تھے۔ حکمران سیاسی جماعتوں نے ججز کی جانب سے وضاحت جاری کرنے کے وقت پر سوال اٹھایا گیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے حال ہی میں خبردار کیا تھا کہ 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری میں 25؍ اکتوبر سے زیادہ تاخیر ہوئی تو اداروں کے درمیان تصادم ہو سکتا ہے اور پارلیمنٹ کو نقصان ہوگا۔
بلاول نے بعض اقدامات کے حوالے سے عدلیہ کی ٹائمنگ پر بھی تنقید کی اور سوال کیا کہ مخصوص نشستوں پر حکم امتناعی کے وقت کی جانچ کیوں نہیں کی جا رہی؟ انہوں نے عدلیہ کی جانب سے 14؍ ستمبر کو (جب پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہو رہا تھا) جاری کردہ چار صفحات کی وضاحت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عدلیہ کے وقت پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔
بعد ازاں بلاول نے یہ بھی کہا کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منصور علی شاہ دونوں کا احترام کرتے ہیں اور یہ ایک ریکارڈ کی بات ہے، لیکن مجھے یقین نہیں کہ جسٹس منصور علی شاہ صاحب اپنی سپریم کورٹ میں دیگر ججوں کو کنٹرول کر سکیں گے۔
بلاول بھٹو نے گزشتہ ہفتے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو میں کہا تھا کہ بعض ججوں نے آرٹیکل 63؍ اے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس میں کئی بار ثابت کیا ہے کہ انہوں نے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے اپنی آئینی حدود سے تجاوز کی کوشش کی۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے رواں ماہ کی 25؍ تاریخ کو موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد عدلیہ میں آنے والی آئندہ ممکنہ تبدیلیوں کے پیش نظر 2024ء کے انتخابات کے ممکنہ آڈٹ کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا تھا۔