اسلام آباد (فاروق اقدس/جائزہ رپورٹ) پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس بین الاقوامی سفارتکاری میں ایک اہم واقعہ ہے جسے ایک تاریخی ایونٹ کے طور پر یاد رکھا جائے گا، گوکہ اجلاس کے انعقاد کی اہمیت کا ابتدائی نتیجہ پیشگی طور پر تیار کی گئی دستاویزات کی اجلاس میں منظوری اور مشترکہ اعلامیے کی عبارت سے ہوگا۔ تاہم پاکستان کو نکتہ نگاہ سے یہ پہلو بھی انتہائی اہم ہے کہ داخلی صورتحال اور سیاسی انتشار کے دوران ایسی عظیم الشان کانفرنس جس میں دو عالمی طاقتوں چین اور روس کے وزرائے اعظم سات ممالک کے سربراہان سمیت عالمی میڈیا کی بڑی تعداد میں موجودگی یقیناً موجودہ حکومت کے کارنامے کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔
22 فروری 1974 کو لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد پاکستان کی تاریخ کا ایک عظیم واقعہ تھا، وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار کے عروج میں ہونے والی اس کانفرنس میں سعودی عرب کے شاہ فیصل سمیت اسلامی دنیا کے عالی مرتبت قائدین اور سربراہان شامل تھے۔
پورے لاہور میں جشن اور پاکستان بھر میں خوشیاں منائی جارہی تھیں، امر واقعہ ہے کہ اس جیسی پرشکوہ اور یادگار اسلامی سربراہوں کا اجتماع دوبارہ پاکستان میں نہیں ہوسکا لیکن اسلام آباد میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے حوالے سے اس سنہری یاد کے دور کو یاد کرنے میں کوئی حرج نہیں کم وبیش نصف صدی قبل اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد ہماری ایک ایسی یاد ہے جسے ان مواقعوں پر تازہ کرنا جہاں ہمارے اسلامی اور ملی جذبوں کو توانا رکھتا ہے بلکہ اس کے بھولے بسرے منظر ہمیں اس بات کا بھی احساس دلاتا ہے کہ کیا ہم واقعی ترقی کی طرف گامزن ہیں اور اگر آج کی صورتحال سے ماضی کی اس یاد کا سرسری سا موازانہ بھی کرلیں تو کئی حوالے افسوسناک بھی ہیں۔