کراچی (ٹی وی رپورٹ)سابق وزیر خارجہ اور چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ مودی میں اعتماد نہیں کہ وہ خود پاکستان آئیں، جب تک کشمیر کی بنیادی حیثیت 2019 سے پہلی والی پوزیشن میں واپس نہیں ہوتی ہم بھارت سے کسی ایشوپر بات نہیں کریں گے.
کینیڈا کی جانب سے بھارت پر جو الزامات لگائے جارہے ہیں وہ کافی سنگین الزامات ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس کا انعقاد پاکستان میں ہونا انتہائی فخر اور خوشی کی بات ہے اور اس اجلاس کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت کئی ممالک کے وزرائے اعظم پاکستان میں موجود ہیں پاکستان کی میزبانی باعث فخر ہے میں وزیر خارجہ رہا ہوں اور جو پچھلی کانفرنس ہوئی تھی اس میں میری شمولیت او ر کافی دلچسپی رہی ۔
وہ پاکستان میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کے حوالے سے جیو نیوز سے گفتگو کررہے تھے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھاکہ ہم اس اجلاس کی میزبانی کے لئے کافی عرصے سے محنت کررہے تھے جب بھارت نے ایس سی او کی میزبانی کی تو اس میں میں خود شریک ہوا اور اس وقت میرا مقصد یہ تھا کہ جب ہم اس سربراہی اجلاس کی میزبانی کریں تو ہم بھی یہ کامیابی حاصل کریں کہ تمام ممالک ہماری میزبان کی تعریف کریں اور اس حوالے سے میں سمجھتا ہوں کہ ایس سی او کامیابی کی طرف بڑھتا جارہا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ میں پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ تھا جو طویل عرصے بعد بھارت اس اجلاس میں شرکت کے لئے گیا تھا تو آج اسی طرح سے بھارت کے وزیر خارجہ پاکستان میں موجود ہیں ۔ عوام اور ہم سب کے لئے یہ فخر کی بات ہے کہ پاکستان اس سربراہی اجلاس کی قیادت کررہا ہے ۔
بھارت سے بائی لیٹرل تعلقات کے سوال پر انہوں نے کہا اس میں مشکلات ہیں کیونکہ یہ ایک ملٹی لیٹرل ایونٹ ہے اور اس میں یہ طے ہے کہ جو ہم سب کے آپس کے بائی لیٹرل ایشوز ہیں وہ ہم ایس سی او فورم پر نہیں اٹھاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایس سی او کا فورم کامیاب ہوتا جارہا ہے کہ ان کے طے کردہ اصول کے مطابق ہم اپنے بائی لیٹرل ایشوز کو اس فورم کے ذریعے چھیڑتے نہیں ہیں تاہم یہ فورم ایسی جگہ ہے جہاں سخت اختلافات رکھنے کے باوجود بھی پاکستان اور بھارت کے وفود یا وزرائے خارجہ موجود ہوسکتے ہیں لیکن سب کا مطمع نظر ایس سی او ہوتا ہے ۔
انہوں نے کہا ہمیں بحیثیت پاکستان کے نمائندے یہ کیس لڑنا چاہئے کہ جو بھارت کا بیانیہ ہے یا موقف ہے جس سے وہ اپنی خارجہ پالیسی میں پاکستان کو اگنور کرتے ہیں ۔