کراچی (ٹی وی رپورٹ) 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے معاملے پر جیو نیوز کی خصوصی ٹرانسمیشن میں ماہرین قانون بیرسٹر صلاح الدین اور اشتراوصاف نے کہا ہے کہ چیف جسٹس کی تقرری کا اختیار حکومت کے پاس ہونے سے عدلیہ کی آزادی پر اثر پڑے گا، سینئر تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ مسودہ تبدیل کروانے پر مولانا کو کریڈٹ دینا چاہئے ۔
اینکر شہزاد اقبال نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سودی نظام سے متعلق کاغذی کارروائی کرنا اچھا ، اس پر عمل ممکن ہے بھی اور نہیں بھی ۔ ماہر قانون بیرسٹر صلاح الدین نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کی تقرری بنیادی طور پر حکومت کے پاس جائے گی جوڈیشری کی آزادی پر بہت زیادہ اثر پڑے گا۔
دوسری چیز جو اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے وہ یہ کہ آینی بینچز ہوں گی سپریم کورٹ میں ان آئینی بینچز میں کون بیٹھے گا کتنی بڑی ہوں گی اس سب کا فیصلہ جوڈیشل کمیشن کرے گا اور اس میں بھی حکومت کی نمائندگی بڑھا دی گئی ہے جوڈیشل کمیشن پر بھی حکومت نے اپنا کنٹرول حاصل کرلیا ہے ۔ کسی قانون کو اگر آپ چیلنج کریں کہ غیر آئینی ہے یا کسی حکومتی اقدام کو چیلنج کریں یہ میرے بنیادی حقوق کے خلاف ہے تو جو بینچ اس کو سنے گا وہ حکومت بنا کر دے گی تو اس میں پھر جوڈیشل ریوو کا معاملہ بھی ختم ہوگیا۔
اگر آپ پرفارمنس کے نام پر یہ سسٹم بنا دیتے ہیں کہ حکومت اگر کسی ہائیکورٹ کے جج سے ناراض ہوجائے تو اس کو کارکردگی رپورٹ کے نام پر اس کو باہر نکال سکتی ہے اس سے یقینا عدلیہ کی آزادی بے معنی ہوجائے گی۔
حامد میر نے کہا کہ چھٹی کے دن اگر سینٹ کا اجلاس ہو رہا ہے اور قومی اسمبلی کا ہونا ہے صورتحال سامنے ہے ۔