اسلام آباد ( رپورٹ:… رانامسعود حسین ) نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا ہے کہ اللہ کے فضل سے پاکستان کے عوام کیلئے قانون کی حکمرانی یقینی بنائی جائیگی، طاقت کی تقسیم کا اصول غالب رہیگا، جج کے وقار اور عدالت کی عظمت کو سختی سے یقینی بنایا جائے، چاہے چترال میں بیٹھا کوئی جج ہو یا میرے ساتھ سپریم کورٹ میں بیٹھا جج، بارایسوسی ایشن کی شکایات کو بھی فوری طور پر حل کیا جائیگا، قاضی فائز عیسیٰ نے خواتین کے وراثتی جائیداد میں حق سے متعلق بہترین فیصلے کیے، ججز میں اختلاف رائے کو تحمل کیساتھ سنا۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کے روز سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعزاز میں منعقد ہ الوداعی ریفرنس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔
اس موقع پرجسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس مسرت ہلالی،جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس نعیم اختر افغان،جسٹس عرفان سعادت خان ،جسٹس عقیل احمد عباسی، جسٹس شاہد بلال حسن ،ایڈہاک جج جسٹس ریٹائرڈ سردار طارق مسعود، جسٹس ریٹائرڈ مظہر عالم میاں خیل، وفاقی شرعی عدالت کے جسٹس خالد محمود اور جسٹس قبلہ ایازتقریب میں موجود تھے جبکہ جسٹس منصور علی شاہ (عمرہ پر جانے) جبکہ جسٹس منیب اختر، جسٹس اطہر من اللہ،جسٹس شاہد وحید، جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس ملک شہزاد احمد خان موجود نہ تھے۔
اس موقع پر جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے ہم نے بے پناہ غلط فیصلے کئے ہوں، کاغذ اور قانون پر چلتے ہیں، سچ تو اوپر والا جانتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شکر ہے میری اہلیہ آج موجود ہیں اور انہوں نے خود میری تعریفیں سن لی ہیں۔
دوران خطاب جسٹس فائز عیسیٰ نے اہلیہ کی تعریف کی۔ نامزد چیف جسٹس نے اپنے خطاب کے دران انہوںنے قاضی فائز عیسیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آپکی ریٹائرمنٹ پر میرے ملے جلے تاثرات ہیں، ایک جانب مجھے آپ کے جانے کا افسوس ہے کیونکہ ہمیں آپکی زبردست مزاح کی کمی شدت سے محسوس ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ بطور جج ان سے بہت کچھ سیکھا ہے ، جہاں مجھ جیسے کئی لوگ خاموشی میں ہی عافیت سمجھتے اور یہ تسلیم کرنے میں شرم محسوس کرتے تھے کہ ہم قانونی امور کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب خواتین کے حقوق بالخصوص وراثت کے حقوق کی بات آتی تو وہ عدالت کی مکمل طاقت کے ساتھ انکے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے ،انہوںنے مزید کہاکہ میرا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے کئی بار اختلاف رائے ہوا، لیکن یہ ہمیشہ میرا نقطہ نظر سننے کیلئے تیار نظر آئے اور ان پر عمل کرنے کیلئے بھی تیار نظر آتے جو ایک ایسی خصوصیت ہے جو بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے اور ہر کسی کو یہ خصوصیت اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
انہوں نے ازراء تفنن کہا کہ ہم اس بات کا باضابطہ اعلان کرتے ہیں کہ ہماری جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعزاز میں رکھے گئے ظہرانے کا انعقاد سرکاری خرچ پر نہیں ہوگا، یہ اتنے ظالم تھے کہ انہوں نے سارے اخراجات میرے سر پر ڈال دیئے البتہ میں نے اپنے ساتھی ججوں سے درخواست کی کہ وہ بھی اس بوجھ کو برداشت کرنے میں میری مدد کریں، سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ جب میں بلوچستان ہائی کورٹ گیا تو میں واحد جج تھا.
ملک میں آئینی بحران آ چکا تھا تو مجھے کسی سے سیکھنے کوبھی کچھ نہیں ملا،لیکن وکلاء نے مجھے سکھایا اور بلوچستان کے وکلاء ی مدد سے آگے بڑھا، نئے ججوں کو مقرر کیا اور ایک غیرفعال بلوچستان ہائی کورٹ کا کام دوبارہ شروع ہوا۔
انہوں نے تمام شرکا بالخصوص نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور دیگر ساتھی ججوں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین فاروق ایچ نائیک اور صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن شہزاد شوکت کا شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے اللہ تعالی کا شکریہ جنہوں نے مناسب سمجھا کہ میں یہ منصب سنبھالوں، عوام کا شکریہ اور سابق چیف جسٹس افتخار احمد چوہدری کا شکریہ جنہوں نے میرا بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ انتخاب کیا تھا
انہوںنے کہا کہ پشین میں رہنے والی میری دادی نے آج سے 100 سال قبل اپنے تین بیٹوں کو اس وقت کی بہترین تعلیم دلانے کا فیصلہ کیا، انکے سب سے بڑے بیٹے قاضی موسیٰ ایکسیٹر کالج گئے، اسکے بعد میرے والد قاضی محمد عیسیٰ انگلستان بار کی ڈگری لینے گئے اور سب سے چھوٹے بیٹے قاضی اسمعیل پائلٹ بنے۔