کراچی (جمشید بخاری)کوپ موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق انتیسویں کانفرنس عالمی کانفرنس نومبر کے دوسرے اور تیسرے ہفتے میں آذر بائیجان کے شہر باکو میں ہو گی ۔موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں پاکستان کا پانچواں نمبر ہے۔
2022 کے سیلابوں میں سندھ میں ہونیوالے جانی و مالی نقصانات 3 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں جن کا ایک معمولی حصہ بھی پاکستان کو نہیں ملا ہے کیونکہ لاس اینڈ ڈمیج فنڈ میں اب تک چند ملین ڈالر سے زائد رقم نہیں آسکی ہے۔
اسی کی دہائی کے آخر میں سائنسدانوں کی جانب موسمیاتی تبدیلی کے رسمی انکشاف کے بعد 1992 میں اقوام متحدہ کے تحت سارے ملکوں نے موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کا ایک تاریخی معاہدہ کیا تھا جسے یو این ایف سی سی (یونائٹیڈ نیشنز فریم ورک کنونشن فار کلائمیٹ چینج) کہتے ہیں جس پر عملدرآمد کے سیکریٹریٹ نے ہر سال موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کے جائزے کے لیے کانفرنس آف پارٹیز کرانے کا اعلان کیا تھا جو اب کوپ کے نام سے جانی جاتی ہے۔
سب سے پہلی کوپ 1995 میں جرمنی کے شہر برلن میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے مستقل ہر سال یہ کانفرنس ہورہی ہے جس میں 2019 اور 2020 میں کویڈ کی وجہ سے تعطل آیا تھا۔ سب سے پہلی کوپ میں بمشکل بارہ سو لوگ شریک ہوئے تھے جبکہ گزشتہ سال ہونے والی کوپ 28 میں 80 ہزار سے زائد افراد کی شرکت ریکارڈ تھی اور قیاس ہے کہ اس سال یہ تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر جائے گی۔
1997 میں جاپان کے شہر کیوٹو میں ہونے والی کوپ 3 اس لیے اہم ہے کیونکہ اس میں ترقی یافتہ ممالک کے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کے لیے کیوٹو پروٹوکول نام سے معاہدہ کیا گیا تھا جبکہ 2009 میں کوپن ہیگن میں ہونے والی کوپ 15 میں ترقی یافتہ ملکوں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے متاثرہ ترقی پذیر ممالک کی امداد کے لیے 2020 تک 100 ارب ڈالر کا موسمیاتی مالیات کا فنڈ قائم کریں جس کا ہدف بڑی مشکلوں سے 2022 تک پورا ہو پایا تھا، اس میں بھی ترسیلات سے زیادہ مالی وعدوں اور عزائم کی اکثریت ہے۔
سال 2015 میں کوپ 21 میں پیرس معاہدہ ہوا تھا جو موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اس میں عزائم اور وعدوں کے بجائے باقاعدہ اہداف رکھے گئے ہیں جن کے مطابق دنیا کے تمام ممالک کو فوسل فیول سے قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی کے ذریعے 2030 تک گرین ہاؤس گیسوں کا عالمی اخراج نصف تک لانا ہے اور 2050 تک مکمل طور پر قابل تجدید توانائی کی طرف منتقل ہو کر عالمی اخراج صفر تک پہنچا دینا ہے تاکہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو ترجیحاً 1.5 ڈگری تک روکا جاسکے۔