فکر فردا … راجہ اکبردادخان اس سال فروری میں پاکستان میں ہونے والے انتخابات بھی اتنے ہی متنازع ہیں جتنے کہ14,18کے انتخابات تھے۔ اصولی بات تو یہ ہونی چاہئے تھی کہ حکومتی اتحاد کی جماعتیں (مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی) متحد ہوکر حکومت نہ بناتیں بلکہ اکیلی جیتی ہوئی PTIکو حکومت بنانے دیتیں۔ ان دونوں جماعتوں نے اپنے منشور اور انتخابی جلسوں اور میٹنگز میں عوام کی رائے کو تسلیم کرنے کے دعوے کر رکھے تھے۔ عبوری حکومت جو مسلم لیگ ن کی بی ٹیم تھی نے ان کو جتوانے کے لئے تمام حربے استعمال کئے۔ PTIانتخابی نشان کے بغیر جیت گئی مگر حکومت نہ بناسکی؟ دنیا کے معاشی طور پر مضبوط ممالک پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ریاستی نظام کا محور سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار رکھنا اپنی خارجہ پالیسی کا اہم جز سمجھتے ہیں۔ شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ کی مدت ابھی کافی لمبی ہے مگر اگلے انتخابات کے بعد مریم اور بلاول میں سے کوئی ایک وزیراعظم ہوگا۔ دونوں خاندان اپنی توانیاں اپنی ان اولادوں پر صرف کر رہے ہیں۔ عمران حکومت گر جانے کے بعد جو حکومت پی ڈی ایم (پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ) کے جھنڈے تلے بنی اگرچہ اس میں بھی وزیراعظم شہباز شریف تھے، کے علاوہ اس حکومت میں بلاول بھٹو وزیر خارجہ بنے اور اس مختصر حکومت میں انہوں نے96ممالک کا دورہ کیا۔ تمام اہم جگہوں پر گئے۔ ان اہم شخصیات نے اپنی کارکردگی سے پاکستان کی سفارتکاری کو کتنا اوپر اٹھایا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ کشمیر پر کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی ہے۔ بلوچستان میں امن و امان کے حوالہ سے ریاست کو چیلنجز کا سامنا ہے اور علیحدگی پسند نوجوانوں کو دوبارہ قومی سیاست کے دھارے میں لاکر انہیں عزت کا مقام دینے میں بھی دیر کی جارہی ہے۔ حقیقی وزیراعظم خواجہ محمد آصف جو وزیر دفاع بھی ہیں، صلح جو سیاستدان نہیں ہیں کیونکہ وہ ایک طاقتور اور حساس منصب پر بیٹھے ہیں، انہیں پاکستان کے مفاد میں اپنے سیاسی مخالفین کی طرف میانہ روی اختیار کرنی چاہئے۔ بالخصوص انہیں میڈیا پر بات کرنے کے جو مواقع مل رہے ہیں، ان کو مثبت انداز میں استعمال کرکے وہ پاکستان کی کہیں زیادہ خدمت کرسکتے ہیں۔ بانیPTIپر سیاسی تنقید ضرور ہونی چاہئے مگر جس طرح آپ نے اس کو ٹارگٹ بناکر سیاست سے باہر کرنے کی ٹھان کھی ہے، اس سے وہ عوام میں زیادہ مقبول ہو رہا ہے، آپ کے لئے بہتر آپشن یہ ہے کہ آپ اسے اپنے ذہن سے نکال کر سیاست کریں، اپنی جماعت کی کارکردگی لوگوں کے سامنے رکھیں۔ عوام اچھے فیصلے کرنے کی بھرپور اہلیت رکھتے ہیں۔ آپ اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے اندر ایک صحت مند سیاسی ماحول پیدا کرنے کے معمار بن سکتے ہیں۔ عوام کی اکثریت بالخصوص مسلم لیگی حلقے آپ جیسے سینئر سیاست دانوں کی موجودگی میں حکومت چلانے کے اہم معاملات میں پی پی کی قیادت کا بھاری عمل دخل جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے، یہ حیران بھی ہے اور رنجیدہ بھی، بانی پی ٹی آئی آپ کا سیاسی مخالف ہے۔ جو صرف اپنی وکٹ بچا رہا ہے۔ دوسری طرف اس سے کہیں زیادہ خطرناک آپ کی اتحادی جماعت (پیپلز پارٹی) کی قیادت ہے، جو آپ کے پارٹنر ہونے کی بنا پر نہ صرف پچ پر موجود ہے بلکہ آپ کو رن بنانے (حکومت چلانے) کے عمل میں رن آئوٹ کرانے کا سوچ رہی ہے۔ گزشتہ انتخابات کے بعد حکومت سازی کے معاملات میں آپ نے جس پارٹنر کا انتخاب کیا ہے، وہی قیادت مسلم لیگ ن کے لئے پریشانیوں کی وجہ بن چکی ہے۔ مقتدرہ کوشش کررہی ہے کہ وہ نیوٹرل رہے، یہ سیاسی نااہلی کی نشانیاں کہ حکومت کا سیاسی حصہ ان کو معاملات میں گھسیٹ کر لے آتا ہے یا ان کا ہر اہم پروجیکٹ میں موجود ہونا ثابت کرتا ہے کہ ادارہ معیشت اور سیست میں بہتری لانے کے لئے سرگرم عمل رہتا ہے، ملک سیاسی طور پر منقسم ہے، موجودہ خلیج کو کم کرنا ایک قومی چیلنج ہے۔ قوم توقع کرتی ہے کہ ادارہ موجودہ سیاسی خیلج کو کم کرنے کے لئے کردار ادا کرے گا۔ فوج سے سیاسی تقسیم ختم کرانے کی توقع؟ ایک غیر معمولی نوعیت کی خواہش ہے، جسے لوگوں کی اکثریت نظرانداز کر کے آگے نکل جائے گی مگر پاکستان کے سیاسی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے چند لمحات کے لئے رک کر سوچنا پڑتا ہے کہ ملک کو درپیش بحران سے نکالنے کے لئے ہمارے پاس زیادہ آپشنز نہیں ہیں۔ ایک آپشن یہ ہے کہ انتخابات کے نتیجہ کو تسلیم کرلیا جائے اور حکومت پی ٹی آئی کے حوالے کر دی جائے۔ یہ فیصلہ پاکستانی عوام کی اکثریت رائے اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کے نتیجہ میں صادر ہو چکا ہے۔ حکومت الیکشن کمیشن کے ذریعہ اعلیٰ عدلیہ اور عوام کی اکثریتی رائے کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی ناجائز حکمرانی جاری رکھنے پر بضد نظر آتی ہے، جس سے ملک میں مزید سیاسی اور آئینی عدم استحکام جنم لے سکتا ہے، جو ملکی معیشت اور سیاسی ماحول کو مستحکم رکھنے کے لئے اچھا شگون نہیں ہوگا۔ مقتدرہ پاکستان میں مستقبل کے وزرائے اعظم کے لئے نوجوان نسل کے امیدواران سے بھی جڑی نظر آتی ہے، جو اچھی سوچ ہے۔ مریم نواز کو پنجاب کا چیف منسٹر بنا کر مسلم لیگ ن نے ایک پروجیکٹ ان کے حوالے کردیا ہے۔ بلاول بھی آج کل اسی قسم کے رول کی تلاش میں ہیں۔ زرداری صاحب کی یہ خواہش کہ انہوں نے بلاول کو وزیراعظم بنوانا ہے، جس کے لئے وہ محنت کررہے ہیں اور اپنی اس خواہش کی تکمیل کی خاطر وہ اپنے بیٹے کو ہر طرف دھکیل رہے ہیں۔ ڈر ہے کہ اس بھاگ دوڑ میں نوجوان بلاول کہیں گر کر زخمی نہ ہوجائے۔ ہماری نئی نسل کے یہ دونوں سیاسی رہنما پاکستان کا اثاثہ ہیں اور یہ دونوں شخصیات اپنے والدین کے ساتھ کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں کی دھڑکنیں بھی ہیں۔