دشتِ اوہام سے نکلے ہوئے ہیں
رنج و آلام سے نکلے ہوئے ہیں
اب تمہیں کیا بتائیں رستے میں
ہم کسی کام سے نکلے ہوئے ہیں
آج پھر خُونِ دل کے سوداگر
اِک نئے نام سے نکلے ہوئے ہیں
کس قدر ہیں اذیّتوں کا شکار
جو دَرو بام سے نکلے ہوئے ہیں
اپنے آغاز پر ہیں نازاں جو
اپنے انجام سے نکلے ہوئے ہیں
خوش نصیبی اُنہیں مبارک ہو
جو تِرے دام سے نکلے ہوئے ہیں
(حامد علی سیّد)