کراچی ( اسٹاف رپورٹر) پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ سندھ کیساتھ بار بار الگ سلوک، ن لیگی حکومت معاہدے پر عمل نہیں کررہی، حکومت قانون سازی کے وقت طے کی گئی باتوں سے پیچھے ہٹ گئی ہے ، حکومت کی جانب سے ہم سے کہا گیا تھاکہ برابری کی بنیاد پر فیصلے ہوں گے لیکن بعد میں ایسا نہیں ہوا اسی سبب میں جوڈیشل کمیشن سے احتجاجاً الگ ہوگیا، انٹرنیٹ اور وی پی این بندش پر ہم سے مشاورت نہیں کی گئی، فیصلے کرنے والوں کو وی پی این کا پتہ ہی نہیں، انٹرنیٹ وی پی این معاملے پر حکومت مشاورت کرتی تو سمجھاتے، زراعت اور ٹیکنالوجی ہی جو معیشت کو سہارا دے سکتے ہیں، بدقسمتی سےحکومت زراعت ٹیکنالوجی کے شعبےکو نقصان دے رہی ہے۔ جمعرات کو بلاول ہاؤس کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ میں اگر جوڈیشل کمیشن میں ہوتا تو آئینی بینچ میں فرق پر بات کرتا اور حکومت سے دیہی سندھ سے سپریم کورٹ میں ججز کے معاملے پر بات کی جاتی ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں انصاف کے سب سے بڑے ادارے میں برابری کی نمائندگی چاہیے ،ایک ملک میں دو نظام نہیں چل سکتے۔انہوں نے کہا کہ وفاقی آئینی بینچ میں سندھ کے لئے الگ طریقہ اختیار کیاگیا، ہمارے صوبے کے ساتھ بار بار تفریق اورالگ رویہ نظرآتاہے۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ سندھ کے لئے بھی وہی طریقہ اختیار کیا جانا چاہیے تھا جو وفاق نے اپنے لئے استعمال کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس اورآئینی بینچ کے سربراہ کو غیر متنازعہ ہوناچاہیے۔عوام کا سب سے زیادہ واسطہ لوئر کورٹس سے پڑتا ہے ۔وزیر اعلیٰ سندھ سے کہا ہے کہ وہ لوئر کورٹس میں اصلاحات کے لئے چیف جسٹس سے بات کریں۔انہوں نے کہا کہ جب تک لوئر کورٹس میں اصلاحات نہیں لائی جاتیں عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ مسلم لیگ ن پیپلزپارٹی کےساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کررہی ہے ،طے ہوا تھاکہ پی ایس ڈی پی مشاورت سے بنائی جائےگی ،میں 26ویں ترمیم میں مصروف تھا، حکومت نے پیچھے سے بیٹھ کر کینالز کی منظوری دیدی۔ہم اس منصوبے سے اتفاق نہیں کرتے۔انہوں نے کہا کہ اتفاق رائے کے کئی طریقے ہوسکتے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا ۔انہوں نے کہا کہ حکومت کینالز کے مسئلے پر جو طریقہ اپنارہی ہے وہ درست نہیں ہے ۔بلاول بھٹو نے کہا کہ بطور پارٹی سربراہ میری ذمہ داری ہے کہ پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کو زمینی حقائق سے آگاہ کروں۔انہوں نے کہا کہ قانون سازی پر بھی مکمل مشاورت ہونی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ یہ بڑی حیران کن بات ہے کہ پہلے فلور پر بل پیش کردیا جائے اور پھر اس کی کاپی مجھے دی جائے۔انہوں نے کہا کہ سیاست عزت کے لئے ہوتی ہے ، ناراضگی کے لئے نہیں ہوتی۔انہوں نے کہا کہ حکومت کے ساتھ ناراضگی کی بات نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں حکومت پارٹنرز کےساتھ معاہدوں پر عمل کرتی ہے،اب ہمیں یہ دیکھیں گے کہ معاہدے پر کتنا عمل ہوا۔صدر مملکت آصف علی زرداری صاحب کی طبیعت کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ اب ان کی طبیعت کافی بہتر ہے ،ان کے پاؤں میں چار فریکچر ہوئے تھے۔مکمل صحت یابی میں کچھ وقت لگے گا۔چینی شہریوں کی ہلاکت پر چینی سفیر کے بیان پر بلاول بھٹو نے کہا کہ سندھ بلوچستان میں مہمان نوازی ثقافت کا حصہ ہے، ہم ہرقسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں۔چین کے شہری ہمارے نہ صرف مہمان بلکہ دوست بھی ہیں،چین ہماری معیشت اور عوام کو فائدہ پہنچاناچاہتاہے ،عوام کا مطالبہ ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کا سدباب ہو۔انہوں نے کہا کہبلوچستان سے لیکر قبائلی علاقوں تک دہشت گردی کی آگ پھیلی ہوئی ہے،حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ صورتحال پر ایکشن لے۔انہوں نے کہا کہ اب عادت بن چکی ہے کہ دہشت گردی کے کسی بھی واقعہ پر صرف بیانات اورتعزیتی دورے ہوجاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عوام کا مطالبہ ہے کہ حکومت باتیں نہیں عمل کرکے دکھائے اور یہ بتائے کہ وہ دہشت گردی کے معاملے سے نمٹنے کے لئے کیا کررہی ہے ۔امریکی صدارتی انتخاب سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہیں، امریکہ کی اپنی سیاست ہے ،ہم امریکی سیاست میں ری پبلیکن،ڈیموکریٹس کی طرفداری نہیں کرتے۔انہوں نے کہا کہ سیاست میں ذاتی تعلقات بھی ہوتے ہیں،ٹرمپ کے داماد اور بیٹی کو جانتاہوں،بی بی شہید کو بھی ٹرمپ نے کھا نے پر مدعو کیاتھا اورآصف علی زرداری ٹرمپ کو صدر بننے سے پہلے جانتے ہیں مگرذاتی تعلقات کی ڈپلومیسی میں اہمیت محدود ہوتی ہے اس میں جیوپالیٹیکس کا اثر زیادہ ہوتاہے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت امریکہ اور پاکستان کے تعلقات اچھے نہیں ہیں۔جب میں وزیر خارجہ تھا اس وقت بھی امریکہ سے تعلقات زیادہ بہتر نہیں تھے ،اس وقت امریکہ کےساتھ بدتر تعلقات ہیں۔وی پی این کی بندش اورانٹرنیٹ کی سلو اسپیڈ پر بلاول بھٹو نے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر بھی ہم سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی ،فیصلے کرنےوالوں کو وی پی این کا پتہ ہی نہیں ہے ، اگر حکومت انٹرنیٹ وی پی این معاملے پر مشاورت کرتی تو سمجھاتے۔