ہے میرا چہرہ کتاب جیسا، ہیں میری آنکھیں نگار خانہ
جو میرے دل میں جگہ بنا لے، اُسی سے رکھتی ہوں دوستانہ
ہے تُوہی رستہ، تُوہی منزل، ترے بنا ء مَیں نہیں ہوں کچھ بھی
اگر تُو میرے قریب آئے تو بُھول جاؤں، غمِ زمانہ
ہے عاشقانہ مزاج تیرا، ہے میرے دل پر بھی راج تیرا
سُخن وَری میں ہے تُو بھی یکتا، ہے میری فطرت بھی شاعرانہ
محبتوں کو خراج دیتی ہے، عہدِ رفتہ کی داستانیں
نئے دنوں کی نوازشوں پر، گئے دنوں کو نہ بھول جانا
تُو میرے جذبوں کی انجمن ہے، مَیں تیری خوشیوں کا پیرہن ہوں
ہے تجھ سے منسوب جانِ جاناں، مِری محبت کا ہر فسانہ
مجھے زمانے کی گردشوں نے، شعورِ فرزانگی دیا ہے
مَیں اپنے دشمن کو جانتی ہوں، خطا نہ ہوگا، مِرا نشانہ
نشاطِ ہجراں کی ساعتوں میں، یہ میرے دل نے کہا ہے مجھ سے
جو خود فریبی میں مبتلا ہیں، نہ ایسے لوگوں کے ناز اٹھانا
نہیں ہے دعویٰ سُخن وَری کا، مَیں طفلِ مکتب ہوں شاعری میں
نہیں ہے اُس سے کوئی تعلق، جن سے چشمک، معاصرانہ
گھٹن زدہ اس فضا میں کشور، نصیب اُس کا عروج پر ہے
جسے میسّر ہیں چند خوشیاں، جسے میسّر ہے آب و دانہ
(کشور عروج)