• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقوام متحدہ کا جائزہ انسانی حقوق پاکستان میں!

حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
ایسا کب ہوتا ہے کہ ہم اپنے مسائل، پریشانیاں، سماجی اتار چڑھائو، معاشرتی ناانصافی، انسانی حقوق کی پامالی اور بدترین بدحالی پر غور کر سکیں۔ پاکستانی قوم تو بلاشبہ اپنی ذات میں اس قدر مسرور و شادماں ہے کہ وہ اپنے مسائل چھوڑ کر دوسروں کے مسائل کا ایسے مشاہدہ کرتے ہیں جیسے یہ مخدوش حالات دنیا بھر کے ہیں، وہاں پربھی مالی معاشی، ناانصافی اور دیگر بدترین حالات ہوتے ہیں مگر پاکستانی قوم کے حالات کا جائزہ لینے کیلئے انسانی حقوق کے ادارے ہیں جس میں اقوام متحدہ بھی ہے جس کی ایکشن کمیٹی ہر سال ہمیں بتاتی ہے کہ ہم اپنے حالات کیساتھ کیسے زندہ ہیں؟ کتنے پانی میں ہیں؟ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان حقوق کی پامالی میں 100نمبر کے اندر ہوتو کیا ہوگا بلکہ کہیں بہت اوپر چلا گیا ہے۔ یہاں وسیع پیمانے پر انتہائی درجے کی انسانی حقوق کی پامالی جاری ہے، جاری رہی ہے اور جاری بھی رہے گی۔ پہلے ہم معاشرتی بدترین صورت حال دیکھیں جس میں گھریلو تشدد، عصمت دری، اغوا، گمشدہ افراد اور دیگر فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات شامل ہیں ہم میں سے بہت سے پاکستانی تو اس طرح کے واقعات کی رپورٹ تک نہیں جانتے تو اس کے اعدادوشمار کیا جان پائیں گے۔ وہ کیا جان پائیں گے تکہ کس قدر مقدمات درج ہوئے؟ اور کتنے مقدمات اپنے انجام کو پہنچے۔ پہنچے بھی یا نہ پہنچے۔ 10 دسمبر کو حقوق کا عالمی دن منایا گیا تو معلوم ہوا کہ ہماری رپورٹ جو ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری ہوئی اس میں کہا گیا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بدستور جاری ہیں۔ لہٰذا بار بار کے جائزے بھی ہمارے ضمیر نہیں جگاتے۔ یہ جتنے بھی جائزے لئے جاتے ہیں ان میں انسانی، شہری اور سیاسی حقوق بین الاقوامی معاہدے کے تحت ہوتے ہیں اور پاکستان اس کا فریق ہے۔ 77واں انسانی حقوق کا عالمی دن منانا اس بات کی گواہی ہے کہ انسانوں کے حقوق کی قدر و منزلت میں یہ بین الاقوامی ادارہ کس قدر متحرک ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی دن کو انسانوں ہی کے معیار کے مطابق منایا جاتا ہے آزادی، انصاف اور وقار کی آواز کیساتھ منایا جاتا ہے۔بنیادی حقوق کے حوالے سے ہر سال ’’ورلڈ جسٹس پراجیکٹ رول آف لاء انڈیکس‘‘ ہر ملک کی اوسط نکال کر ہمارے سامنے رکھ دیتا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ کہ جس قدر بھی اوسط سکور کیساتھ نکالی جائے تو 140ممالک میں سے ہمارا معیار گرتا ہی جاتا ہے۔ دکھ اس بات کا ہوتا ہے کہ ہماری قوم مسرور و شادماں ہو کر سوچتی ہےکہ شائد ہمارے ملک کے حالات و عوام کے حالات تمام غریب ممالک سے بہتر ہیں یعنی ہماری قوم مشاہدہ کرتی رہتی ہے کہ بھارت میں حالات نہایت بدترین ہیں، بنگلہ دیش میں بھوک ننگ ہے، افغانستان میں بھی کچھ خاص ترقی کے آثار نظر نہیں آتے مگر پھر بھی انسانی حقوق کی پامالی میں ہم بہت اوپر ہیں۔ جن کے عیوب کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں ان کا اوسط سکور پھر بھی ہم سے بہتر ہوتا ہے۔ اندازہ کیجئے کہ یہ ان حالات کا جائزہ نہیں کہ غربت ہے یا جرائم بہت ہیں یہ تو انسانی حقوق کا معاملہ ہوتا ہے کہ کو ن سا ملک اپنے عوام کو کس قدر ریلیف دیتا ہے ان کی شخصی آزادی میں، ان کے حقوق کے غصب ہونے میں ریاست کا کیا کردار ہے یا کیا احساس ذمہ داری ہے۔بہرحال یہ تازہ ترین سروے رپورٹ تو نہیں کہہ سکتے مگر یہ ضرور ہے کہ گزشتہ کئی سال سے ہمارا معیار اسی نمبر کے گرد گھوم رہا ہے کہ ہم اپنی خفت اور شرمندگی مٹاہی نہیں پا رہے۔ 140 ممالک میں ہم کبھی 123ویں نمبر پر ہوتے ہیں یا پھر اس سے ایک کم یا زیادہ کا فگر ہوتا ہے۔ جب سری لنکا جیسا غیر ترقی یافتہ ملک 86ویں نمبر پر اور بھارت 94ویں نمبر پر رہے تو حیرت ہوتی ہے کہ وہاں تو انسانی حقوق کی پامالی کا گراف بہت اونچا ہے وہاں مسلمانوں کو جس قدر سوتیلا ترین جانا جاتا ہے اس کی مثال کسی اور ملک میں نہیں ملتی جہاں مسلمانوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ یا تو اپنا مذہب تبدیل کریں یا پھر اس ملک سے نکل جائیں۔ حیرت ہے کہ بھارت میں مسلمانوں پر تشدد روا رکھا جاتا ہے۔ ان کے خلاف نفرت پھیلائی جاتی ہے یہ پرتشدد واقعات روزانہ مختلف علاقوں میں دہرائے جاتے ہیں۔ مسلمانوں کی دینی درسگاہیں ختم کرکے وہاں مندروں کی تعمیر کرنے کا سوچ رہےہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ مسلمانوں کے حق میں بھی تیار ہونی چاہئے کہ جہاں یہ پوچھا جائے کہ مسلمانوں سے یہ سلوک کیوں روا رکھا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو مسلمان ہونے کی سزا دی جاتی ہے۔دوسری طرف دیکھا جائے تو کہا سنا جا رہا ہے کہ سندھ میں ہندوئوں پر پابندیوں اور مظالم کی خبریں آرہی ہیں۔چلئے یہ تو مسلم ہندو لڑائی ہے جو دونوں ممالک کی ایک دوسرے سے دشمنی کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے حقوق انساں کا گراف اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے مگر دکھ ہوتا ہے جب ایران جیسے اسلامی ملک کی پوزیشن آخری نمبرز پر رہے۔ معلوم نہیں اقوام متحدہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کچھ بہتر قدم اٹھا ہی لے۔
یورپ سے سے مزید