• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مملکت خداد داد میں ہرسال کی طرح اس سال 2024 میں  بھی عورتوں کی سالانہ میراتھن ریس منعقد ہوئی جس میں ہر عمر، ہررنگ اور ہرنسل کی مائیں بہنیں بیٹیاں حصہ لیتی ہیں۔ گزرے سال میراتھن ریس میں خیبر پختونخواہ کی داخانئی ، پنجاب کی ہیر، سندھ کی ماروی ،بلوچستان کی ملک ناز،گلگت بلتستان کی نیلمہ اور کشمیر کی مہروش سب ہی نے حصہ لیا۔ 

 یہ ریس 365دنوں تک جاتی رہتی ہے۔ سال کے 365؍دن ہمارے لیے 365؍ اذیتیں، 365 سازشیں ہوتی رہتی ہیں۔ کانپتی سسکتی روحوں اور درد میں گندھے وجود کے ساتھ اپنی آہوں ، آنسوؤں اور چیخوں کو دبا تی دوڑتی رہتی ہیں، تاکہ انھیں اپنے ہونے کا جواز مل سکے، اپنے آپ کو گھوٹتی اور مرمر کر جیتی رہیں۔

برابری کے سلوک کے لئے، تشدد سے بچنے کے لئے، اپنے حقوق کے حصول کے لئے کہ انہیں وہ حقوق مل جائیں جو مذہب اسلام نے انہیں دئیے ہیں گرچہ بظاہر ملکی قوانین بھی بنے۔ جیسے تعلیم حاصل کرنے، نوکری ،مرضی سے شادی کرنے، جائیداد میں وراثت اورتشدد کی صورت میں آواز اٹھانے کا حق وغیرہ ان کے حصول کے لئے وہ عرصے دراز سے جدوجہد کررہی ہیں۔ مٹھی بھر خواب آنکھوں میں لئے ہر سال تعبیر کے پیچھے بھاگتی ہوئی عورتیں، بس یہ چاہتی ہیں کہ ہمارا احترام کیا جائے۔ 

ہمارے مختلف انداز فکر کا مان رکھا جائے۔ اس لئے وہ راستے کی سختی سے، راستے کی گرمی سے ناتھکتی ہیں نا گرتی ہیں اور ناہی ان کے پیر جلتے ہیں ۔یہ لڑکیاں یہ عورتیں حتیٰ کہ بوڑھی عورتیں بھی، کچھ تیز کچھ آہستہ کچھ زخمی کچھ بیمار، بس اپنا سفر جاری رکھے ہیں۔ 

خاص بات یہ ہے کہ ان میں میرا جسم میری مرضی اور عورت گھر کی زینت، والی ساری خواتین شامل ہوتی ہیں۔ لیکن حملہ آور ہونے والے بھیڑیئے ڈنک مارنے کو تیار بچھو پھن لہراتے، سانپ راستہ کی دیوار بنے ڈستے بھی رہے، حملے بھی کرتے رہے۔ درد اتنے ہیں خلاصے میں نہیں آئیں گے، پھر بھی گزرے سال کا مختصر احوال قلم بند کررہے، ملاحظہ تو کریں۔

کرہ ٔارض پر عورت رشتوں ، آباد بستیوں اور ہنستے ہوئے بچوں کا نشان ہے، مگر دیکھیں فیصل آبادمیں الٹراساؤنڈ پر تیسری بچی کی نشاندہی پر شوہر نے حاملہ بیوی کو قتل کردیا ، کوہاٹ میں بیٹے کے خواہشمند باپ نے نوزائیدہ جڑواں بیٹیوں کو پانی کے ٹینک میں ڈبو کر ہلاک کردیا، صوابی میں باپ نے 15دن کی بچی کو زندہ دفن کردیا۔ 

میرپور میں باپ نے پندرہ دن کی بیٹی کوگلا دبا کرماردیا۔ ڈسکہ میں شوہر نے بیوی پر کلہاڑی سے وار کرکے اُسے ٹانگوں سے محروم کردیا ،صرف اس بات پر وہ طیش میں آیا کہ، بیوی نے بچّے کے اسکول کے لیے دس روپے مانگے تھے، اسی علاقے میں سگی خالہ نے بھانجی کو جو اُس کی بہوتھی ،قتل کردیا، وجہ قتل خود اُس نے یہ بتائی کہ میرا بیٹا بیو ی سے بہت محبت کرتا تھا ،جو مجھ سے برداشت نہ ہوئی مقتولہ ایک بیٹے کی ماں اور سات ماہ کی حاملہ تھی۔

یہ حال ہے آج کی عورت کا ،جو گھریلو تشدد جنسی تشدد، اغوا، ہراسانی تیزاب گردی، اسمگنگ ،سائبر کرائم فیمی سائیڈ، کم عمری کی شادی وغیرہ کا شکار رہی۔ ایشین ڈیولپمنٹ بینک کی تازہ رپورٹ کے مطابق2024 ء میں پاکستان میں گھریلو تشدد میں 46فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ پنجاب میں 57فیصد عورتیں، سندھ میں 27فیصد ،کے پی میں 8فیصد ،گلگت بلتستان میں 6فیصد اور بلوچستان میں 2فیصد عورتیں جینڈر بیسڈ وائلنس GBV کا شکار ہوئیں۔

خواتین میں تعلیم اور معاشی خود مختاری ناہونے کی وجہ سے وہ مردوں کے ظلم سہنے پر مجبور ہیں۔ دنیا بھر میں پاکستان عورتوں کے لئے تیسرا خطرناک ترین ملک قرار دیا گیا ہے۔ گھریلو تشدد جسے عام طور پر جرم نہیں سمجھا جاتا پانچ ہزار عورتیں سالانہ اس کی زد میں آتی ہیں جب کہ تشدد کے وار سے ہزاروں معذور ہوجاتی ہیں۔

2024کی ایک رپورٹ کے مطابق، صنفی امتیاز میں دنیا کے 146ممالک میں پاکستان کا نمبر 145واں ہے۔ گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ کے مطابق، 34فیصد ہے یو این او کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 37ملین عورتیں صنفی امتیاز کا شکار ہیں جس کی وجہ رسم و رواج معاشی خودمختاری جھگڑے آفات اور کمزور عورتیں۔

یکم جنوری 2024 کے پہلے روشن دن حیدرآباد میں گھریلو تنازع پر شوہر نے پیٹرول ڈال کر اپنی بیوی غلام زادی کو آگ لگا دی۔ میراتھن میں شامل ’’سدوری‘‘ کو تنگوانی کے گاؤں رسول آباد میں شوہر نے پستول سے فائر کرکے قتل کردیا۔ نادرن بائی پاس گوٹھ عباس میں دو بچوں کی ماں شاہین جو خود LHVتھی۔ 

شوہر نے زہردے کر مار کردیا۔ ٹنڈوباگو میں خاتون کو شوہر نے قتل کرکے لاش مسجد میں چھپائی۔ سرجانی ٹاؤن میں شوہرنے جھگڑے کے دوران بیوی کو چھری کے وار سے قتل کردیا ۔ پشاور میں نشہ کے عادی شخص نے فائرنگ کرکے بیوی اور بیٹی کو قتل کردیا۔ کراچی میں بیوہ خاتون کی دوسری شادی کی خواہش پر سفاک سسر نے تیز دھار آلے سے قتل کردیا۔ 

لودھراں میں پڑوس میں جانے پر باپ اور بھائی نے لڑکی کا گلا کاٹ کر قتل کردیا ۔ خضدار میں شوہر نے موبائل فون استعمال کرنے پر بیوی کا گلا دبا کر قتل کردیا۔ ڈسکہ میں اجازت کے بغیر بہن سے ملنے جانے پر شوہر نے بیوی کو قتل کردیا۔ کراچی میں شوہر نے پانی نہ پلانے پر بیوی کو قتل کردیا۔

نوشیرو فیروز میں سید خاندان کی صوبیہ بتول کی دونوں ٹانگیں اس کے والد اور چچا نے کاٹ دیں کیونکہ اس نے اپنے شوہر پر طلاق کا کیس فائل کیا تھا ۔منگھو پیر میں بیٹی کا رشتہ نادینے پر بھتیجے نے چاچی کو گولی مار کر قتل کردیا۔ ٹنڈو آدم میں سابقہ شوہر نے سابقہ بیوی کو کلہاڑی کے وار سے قتل کردیا۔ اینکر پرسن عائشہ جہانزیب کو شوہر نے بدترین تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔نواب شاہ میں بدچلنی کے الزام میں بھائی نے کرنٹ لگا کر دو بہنوں کو قتل کردیا۔ لیکم ممتا سے مجبور ماں نے اسے(بیٹے کو ) معاف کردیا۔

سکھر میں فون پر بات کرنے پر سسر نے کلہاڑی کے وار سے بہو کو قتل کردیا۔ حیدرآباد میں بیوہ چچی اور اس کی بیٹی کو کمرے میں قید کرکے دیوار چنوادی گئی، گھر پر قبضہ کرنا مقصد تھا۔ کراچی میں بیٹے نے شک کی بنیاد پر ماں بہن بھابی اور بھانجی کو گلا دبا کر قتل کردیا۔ 

میہڑ میں شوہر نے اپنے 5بچوں کی ماں کو ڈنڈوں سے مار کر ٹانگیں توڑ کر قتل کردیا۔ عربی رسم الخط کا لباس پہننے پر مردوں کا جتھہ عورت پر حملہ آور ہوگیا ۔ خاتون پولیس آفیسر نے اسے بچایا۔کوٹ ڈیجی میں گھریلو ناچاقی پر عورت پر تشدد کیا اور اس کے بال مونڈھ دیئے۔

دل تھام لیں اور آنکھوں میں آئے آنسو پونچھ لیں۔ ابھی تو کچھ نہیں ہوا۔ابھی تو ابتدا ہے یہ جولائی کے 24دنوں مں صرف منڈی بہاالدین میں عورتوں پر تشدد کے 46کیس رپورٹ ہوئے۔ گذشتہ 9ماہ میں سندھ میں 240عورتوں کو قتل اور 110عورتوں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ حلق نمکین ہوگیا با…؟ چلیں ریس میں شامل باقی عورتوں کو احوال سنیں۔ اس راستے میں دونوں جانب گھات لگائے بے غیرت مردوں کے غیرت مند جتھے بھی موجودہیں جو عورتوں اور لڑکیوں کو کاروکاری ، سیاہ کاری یا تورا توری کے نام پر قتل کردیتے ہیں۔ 

قریباً 1000بیگناہ معصوم عورتیں سالانہ غیرت کے نام پر قتل کردی جاتی ہیں۔ افسانے، درد و محرومی کے دہرائے نہیں جاتے ان تمام عورتوں کے نام نہیں بتائیں گے، کیوں کہ یہ تو میں ہوں اور یہ تو آپ بھی ہیں ۔ 2024 میں صرف سندھ میں کاروکاری کے 76واقعات رپورٹ ہوئے جو دراصل غیرت نہیں تکبر کا ثبوت ہیں اسلام میں عورت کی کردارکشی کا الزام لگاناقابل سزا جرم ہے۔ 

پاکستانی قانون کے سیکشن 496کے تحت سزا کے لئے جرم ثابت کرنے کے لئے 4گواہوں کی شرط لازم ہے ۔ مگر یہ پوری کئے بغیر ہی کبھی ذاتی مفاد کبھی ذاتی عناد کبھی جائیداد کے حصول اور کبھی اپنا جرم چھپانے کےلئے عورت کو غیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے۔

بنے ہیں اہل ہوس مدعی منصف بھی

کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں

کوئی کفن دے کہ ہم رواجوں کی سولیوں پر لٹ رہے ہیں !!سندھ میں جولائی 2024 تک کارو کاری کے 76 کیس رپورٹ ہوئے ۔ عصمت دری یا آبروریزی جیسے الفاظ سے کیا اس جرم کی سنگینی کا ادراک کرنا ممکن ہے۔ یاوہ کرب محسوس کیاجاسکتا ہے جو ذہنی زیادتی کا شکار ہونے والی عورت کو پوری زندگی سہنا پڑتا ہے۔ ریپ صرف جسمانی حملہ نہیں بلکہ یہ انسان کی روح، عزت اور زندگی پر حملہ ہے۔ 

میراتھن میں راستے کے دونوں جانب دو پاؤں والے جانور اپنی لال زبانوں، تیز پنجوں چمکدار آنکھوں اور منہ سے نکلتی جھاگ کے ساتھ اپنے ہاتھوں میں ہوس کی برچھیاں تھامے شکار پر حملہ آور ہونے کو تیار بیٹھے ہیں۔ ان میں ہر عمر ہر نسل اور ہررشتے کا مرد شامل ہے جن میں باپ بھائی اور سسر بھی شامل ہیں۔

فروری 2024 میں سینیٹ کے اجلاس میں ریپ کیسز میں مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کے فوجداری قوانین کے بل کو کثرت رائے سے مسترد کردیا گیا، جب کہ صرف سندھ میں ستمبر 2024 تک ریپ کے 483کیس اور گینگ ریپ کے 45کیسز رپورٹ ہوئے ۔ 

دوسری جانب اسلام آباد میں ریپ کے 150کیسز رجسٹر ہوئے ۔ سرسری نظر ڈالتے ہیں پہلے دل تھام لیں ۔ میہڑ مین طالبہ سے زیادتی لڑکی اپنے پڑوس میں ملزم کی بیوی سے سلائی سیکھنے جاتی تھی۔

نواب شاہ می مانوں کی گونگی بھانجی کے ساتھ زیادتی۔کراچی شیلٹر ہوم میں انچارج کی لڑکی کے ساتھ زیادتی ،کراچی میں چچا کی بھتیجی کیساتھ زیادتی،روالپنڈی میں مالک مکان نے کرایہ دار کی لڑکی کوبے آبرو کردیا۔

 حیدر آباد میں کراچی کی لڑکی سے اجتماعی زیادتی ،کراچی میں سسر کی بہو کے ساتھ جنسی زیادتی ،لاہور میں نوکری کا جھانسہ دے کر خاتون سے زیادتی، دادو میں سوتیلے باپ کی معصوم بیٹی سے زیادتی ،میہڑ میں گداگر لڑکی سے اجتماعی زیادتی جس کی ویڈیو بھی بنائی گئی۔

ٹھری میرواہ میں معذور لڑکی سے جنسی زیادتی ،اسلام آباد میں غیر ملکی خاتون سےجنسی زیادتی، لاہور میں جعلی پیر نے ذہنی مریض لڑکی کو بے آبرو کردیا۔ دادو، خیر پور اور ٹنڈو آدم میں لڑکیوں سے اجتماعی زیادتی ۔سرجانی ٹاؤن میں عطائی ڈاکٹر کی کمسن مریضہ سے زیادتی دادو میں 14سالہ بچی کو محلے کی عورت بھلا پھسلا کر پڑوس کی بیٹھک میں لے گئی جہاں اسے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ 

حافظ آباد میں شوہر اور بچی کے سامنے اسلحہ کے زور پر خاتوں کا گینگ ریپ، گجرانوالہ میں 5طالبات سے ٹیچر کے شوہر کی زیادتی، کراچی میں فیکٹری ورکر نے اپنی ساتھی سے جھگڑا ہوجانے پر اسے اپنے شوہر سے ریپ کروادیا۔

جیکب آباد میں پولیو ورکر کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنادیا گیا ۔ دل چیرنے والی بات یہ ہے کہ لڑکی کی ماں اپنے رشتہ دار کے ساتھ مل کر لڑکی سے جسم فروشی کرواتی تھی۔ پاکپتن میں ڈاکوؤں نے رات کوگاڑی روک کر ڈکیتی کی اور 17سالہ لڑکی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا ۔ کاش 2023 میں موٹروے سانحہ پر سرعام پھانسی دی گئی ہوتی تو آج یہ سب کچھ نہ ہو رہا ہوتا۔ 

جیکب آباد میں زیادتی کا شکار عورت نے مردہ بچے کو جنم بھی دے دیا وہ اب تک انصاف کی منتظر ہے کہ تاحال DNAرپورٹ نہیں آئی۔ آخر وہ کہاں محفوظ ہے۔ یہ عورت نازمین کے اوپر ناہی زمین کے اندر …کراچی میں خاتون کی لاش کو قبر سے نکال کر بے حرمتی کرنے والے شخص نے اعتراف جرم کرلیا، جو 8سال پہلے بھی اسی جرم میں گرفتار ہوکررہا ہوا تھا۔ 

کراچی سے اسلام آباد جانے کے لئے دو بچوں کے ساتھ ٹرین میں سوار عورت سے قانون کے محافظ کانسٹبل نے جنسی زیادتی کی اور اسے ٹرین سے نیچے پھینک کر قتل کردیا۔ کچھ بھی نہیں ہوگا نہ سرعام پھانسی نا ہی سخت سزا، بس عورت انصاف کے لئے دوڑتی بھاگتی رہے گی۔ 

قانون مجرم کی حفاظت کرتا رہے گا۔ آنسوؤں سے دھندلائی آنکھوں کو پونچھ لیں، دیکھیں اسی میراتھن میں شامل عورتوں پر بھیڑیوں کی شکل میں چھپے ہوئے بھیڑیوں نے عورتوں پر تیزاب گردی کی ۔ اُن کو بے چہرہ کرنے کی بھیانک کوشش کی 2024میں 10عورتیں ان کا شکار ہوئیں۔

بلوچستان کی خاتون پولیس اہلکار پر اس کے شوہر نے تیزاب پھینک دیا۔ مظفر گڑھ میں سابقہ عاشق نے شادی شدہ محبوبہ کو تیزاب سے جھلسا دیا ۔ کراچی میں نشے کے لئے پیسے دینے سے انکار پر شوہر نے بیوی پر تیزاب پھینک دیا۔ اسی ریس میں دوڑتی عورتوں میں ذہنی ، جسمانی اور معاشی مسائل کی وجہ سے خود کشی کا رجحان بڑھا۔ 

پاکستان میں ایک لاکھ میں 8.9فیصد لوگ خود کشی کرلیتے ہیں جس میں عورتوں کا تناسب 4.3 فی صد ہے۔ کبھی سوچئے گا کہ زندگی سے بھرپور زندگی کی ضامن عورت کیسے زندگی سے ناراض ہوسکتی ہے ۔ مون سون کی دلہنیں کبھی سنا ہے آپ نے۔ موسمیاتی شدت کی وجہ سے کم عمر لڑکیوں کی شادی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ سیلاب کے خطرے کے باعث معاشی عدم استحکام سے بچنے کے لئے بیٹیوں کی رقم کے عوض شادیاں کی جارہی ہیں۔ 

دلہا کسی بھی عمر کا ہو دو لاکھ کے عوض کمسن بہن حاضر ہے ۔2024 میں 18.9 ملین بچوں کی شادی 18سال سے کم عمر میں اور 4.6 ملین بچیوں کی 15سال سے کم عمر میں شادیاں کردی گئی َ کتنی ہی عورتیں او ربچیاں پسند کی شادی یا شادی کا جھانسہ دے کر اغوا کرلی گئیں یا بے آبرو کردی گئیں۔

یہ عورت جو غیرت کے نام پر قتل کی جاتی ہے، اسی عورت کی خرید و فروخت بھی کی جاتی ہے۔ TIPرپورٹ پاکستان (Trafficking in persons report)کے مطابق انسانی اسمگلنگ کے شکار افراد کی تعداد 34533 ہے جو متاثرہ خواتین اور لڑکیوں کی تعداد 24398 یعنی 70.6 فیصد ہے ۔ ملکی قوانین اور دین اسلام میں عورت کو وراثت کا میں حق حاصل ہے مگر اس حق کو بھی عورت تک منتقل کرنا مردوں کے لئے بڑا مسئلہ ہے۔

کبھی جذباتی طور پر بلیک میل کرکے کبھی یہ کہہ کر کہ شادی پر خرچہ ہوا اور کبھی زور زبردستی اور کبھی تشدد کے ذریعے عورت کو حق وراثت سے محروم رکھاجاتا ہے ۔ صرف خیبر پختون خواہ میں 2024 میں  527خواتین نے وارثتی حقوق کے عدم تحفظ پر شکایت درج کروائی ہیں ۔ اور وہ جن کو قوانین کا علم ہی نہیں وہ صبر کررہی ہیں۔ 

اگر وہ اپنے وراثتی حق کی بات کریں تو تشدد کے ساتھ ساتھ انہیں مضروب کرکے قتل بھی کردیاگیا۔اس میراتھن ریس میں دوڑتی عورتوں کو 2024 میں  تشدد کی طرح ہراسانی کا بھی سامنا رہا ۔ سال کے 9ماہ کے دوران صرف سندھ میں 48 عورتوں کو ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔

عباسی شہید اسپتال کراچی میں ڈاکٹر نے خاتوں تیماردار کو جنسی طور پر ہراساں کیا۔ نارتھ کراچی میں راہ چلتی خاتون کو موٹر سائیکل سوار نے نازیبا حرکات کرکے ہراساں کرتا رہا ۔ cctvفوٹیج میں چہرہ نمایاں ہونے کے باوجود پکڑا نہ جاسکا۔

بھاولنگرمیں یونی ورسٹی طالبہ کو ہراساں اور بلیک میل کرنے پر لیکچرار گرفتار، وہ واٹس ایپ پر غیر اخلاقی پیغامات اور وڈیوز بھیجتا تھا، تعلق نہ رکھنے پر قتل کی دھمکی بھی دی ۔ٹھٹھہ میں خاتوں پولیو ورکر سے گھر کے مکین مردوں نے بدتمیزی بھی کی اور ہراساں بھی کیا۔ 

سکھر میں بااثر افراد کو کم عمر بیٹیوں کے رشتہ نا دینے پر مسلح افراد نے ماں کو ہراساں کیا۔ گورنر ہاؤس میں نوکری کا جھانسہ دے کر خواتین کو جنسی ہراساں کرنے والا شخص گرفتار کرلیا گیا ہے۔ شیخوپورہ میں خاتون ٹیچر کو جنسی ہراساں کرنے والے ایجوکیشن افسر کر برطرف کردیا گیا۔ پشاور میں خاتون کو آن لائن ہراساں کرنے پر سابق شوہر گرفتار ہوگیا ۔ اس نے واٹس ایپ پر نازیبا تصاویر اور ویڈیوز وائرل کی تھیں۔

گلشن حدید میں اسکول پرنسپل کی نازیبا ویڈیوز بنانے والا گرفتار ہوا،پھرکیا ہوا،کچھ بتائیں ۔ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کی خاتون بیورو کریٹ نے سینئر سیکریٹری پر جنسی ہراسانی کی رپورٹ درج کرائی ہے۔

بھاولپور میں بے غیرت شوہر نے بیوی کی نازیبا تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کردیں۔ اسی طرح ایک اور بے غیرت شوہر کو ڈارک ویب کے لئے اپنی بیوی کی غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے ہر گرفتار کیا گیا ہے ۔ ویسے تو دنیا بھر میں خواتین کو ہراسمنٹ اور سائبر کرائمز کا سامنا ہے مگر پاکستان جیسے اسلامی معاشرے میں ان عورتوں کو ایک انفرادی خطرے کا بھی سامنا ہے ۔ وہ ہے ’’ آن لائن ہراساں‘‘ یہ بہت کم واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ کتنی عورتوں کو سائبر ہراسمنٹ ہیلپ لائن 0800-39393 کا علم ہے؟

2024 کی کچھ مزید اچھی خبریں

گجرنوالہ پولیس نے وومن انکلیو بنایا ہے جہاں خواتین کے لئے FIAسائبر کرائم اور ٹریفک سمیت دیگر مسائل کے حل ایک ہی چھت کے نیچے ہورہے ہیں، اس کے علاوہ یہاں عورتوں کو ڈرائیونگ سکھائی جاتی ہے۔ ماہر نفسیات کی خدمات کے ساتھ ہی فری لیگل ایڈ بھی میسر ہے ۔ سندھ ریسکیو 1122،میں پہلی بار خواتین کو شامل کیا گیا ہے۔

اسمبلی میں میرج بل تیار کیا گیا ہے، جس میں طلاق کی صورت میں نان نفقے کے علاوہ شادی کے بعد بننے والے اثاثوں میں سابقہ بیوی کو حصہ ملے گا۔ لاہور ہائی کورٹ نے خواتین کے شناختی کارڈ پر والد کے نام کو برقرار رکھنے کے لئے قوائد میں ترمیم کا حکم جاری کیا۔ 

وفاقی کابینہ نے گھریلو تشدد کے روک تھام ڈومیسٹک وائلنس پریونشن اینڈ پروٹیکشن بل کی منظوری دے دی ہے۔ کاش ان پر اطلا ق بھی ہو۔ پنجاب ورکنگ وومن ہوسٹل اور ڈے کیئر حکومت کی طرف سے بنائے جارہے ہیں۔ یہ تو 2024 میراتھن کا احوال تھا۔

کیا ہم 2025 میں ایک دوسرے کے لئے دل میں درد اور آنکھ میں آنسو رکھیں گےیا ہم آنسو پونچھ کر درد کا مداوا کریں گے۔ آئیے عہد کریں کہ ہم خود کومرجھانے نہیں دیں گے۔ خود کو توانا اور پُراعتماد بنائیں گے اور خود ہی اپنا ساتھ دیں گے نوحہ ہوں خود ہی اور دلاسہ بھی خود ہی ہوں مجھے ہمت حوصلے او عزم رکھنے والی عورتوں سے عشق ہے کیوں کہ یہ بڑھتی رہتی ہیں چلتی رہتی ہیں تب تک جب تک یہ اپنی قوت عزت اور توقیر کو پہچان نہ لیں۔

یہ رواجوں کی سولیوں پر لٹک کر کفن کا انتظار نہیں کرتیں ، ناہی باہر کی دنیا سے لاتعلق رہ کر گھر میں گول روٹی بنانے،جھاڑو دینےاور بچے پیدا کرنے تک محدود رہتی ہیں اور نہ ہی یہ معاشی طور پر مرد کی محتاج ہوتی ہیں ۔ انھیں دنیا میں سر اٹھا کر جینا آتا ہے یہ کسی طرح بھی مردوں سے کم نہیں ہیں، اس لئے ہمیں کوشش کرنا ہوگی۔ 

صنفی امتیاز ختم کرنے کی ،ہومن رائٹس کی تعلیم کو بچوں کے نصاب میں شامل کرنے کی، وراثت میں  عورت کے حصے کے لئے قانون پر عمل درآمد یقینی بنانے کی، لڑکوں کی تربیت میں بچپن سے یہ بات شامل کرنا ہوگی کہ لڑکیاں ان جیسی اوران کے برابر ہیں۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ آنے والے سالوں میں عورت ذہنی، جسمانی سماجی، جنسی اور معاشی تشدد کا شکار نا ہو اور ساری عورتیں بغیر رکاوٹوں کے میراتھن ریس میں کامیاب ہوسکیں تو عام عورتوں کو مل کر محنت کرنا ہوگی، لگن اعتماد اور محبت کے ساتھ ،تاکہ ان کی آواز سنی جاسکے، ان کا احترام کیا جائے۔ ہمت کرو جینے کو تو اک عمر پڑی ہے۔

 سب کچھ برا نہیں ہوا ،کچھ اچھا بھی ہوا

اب ذرا رُکیں اس میرا تھن کا اختتام قریب ہے۔ ان تمام عورتوں میں کچھ ایسی بھی ہیں جنھوں نے اپنے گالوں پر بہتے آنسوؤں کو خشک کرکے ہر مشک پر مخالفت ہر سختی پر دشواری ہر تشدد کا مقابلہ کیا ہے ۔ اور کامیابی نے ان کے قدم چوم لئے۔ 

یہ دیکھئے 2024 میں مریم نواز پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ بنیں ۔٭طاہرہ یعسوب گلگت بلتستان کی پہلی AIGیڈیشنل انسپکٹر جرنل کے عہدے پر فائز ہوئیں ٭ عالیہ نیلم لاہور ہائی کورٹ کی پہلی خاتون چیف جسٹس ،گل پری ترین کوئٹہ کی پہلی خاتون اےایس پی اوربلوچستان کے 6اضلاع میں روحانہ گل ، حمیرا بلوچ، عائشہ زہری ، بتو اسدی ،ثنا جبین عمرانی اور فریدہ ترین ڈپٹی کمشنرز کے عہدے پر فائز ہوئیں ٭ پولیس سروس کی دو خواتین آفیسر فریال اور رفعت حیدر کو اقوام متحدہ کے مشن کے لئے منتخب کیا گیا ہے ۔ ٭عائلہ ماجد نے اسے سی سی اے گلوبل ایسوسی ایشن کی 120سالہ تاریخ میں پاکستانی مسلم صدر بن کر تاریخ رقم کردی ۔٭ شائستہ آصف اور شازیہ سید نے خود کو بااثر بزنس وومن کے طور پر تسلیم کروا کر فوربس کی لسٹ میں شامل کروالیاْ ٭ایمان خان اور بانو بٹ نے اپشن مکس مارشل آرٹ MMA میں گولڈ میڈل اپنے نام کئے۔ 

تین بہنیں سبیل سہل ، ورنیکا سہل اور ٹوینکل سہل نے ساؤتھ افریقہ گیمز میں 12گولڈ میڈلیے ۔ ٭ نبیحہ ثاقب نے A LEVEL کیمسٹری میں پوری دنیا میں ٹاپ کیا۔ ٭نائلہ کیانی نے نیپال میں دنیا کی پانچویں بلند ترین چوٹی سرکرلی ۔*تھل جیپ ریلی میں ٹینا پٹیل فرسٹ اور سیدہ ردا سیکنڈ آئیں۔