• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علومِ نبویﷺ کی عظمت و اہمیت اور عُلمائے کرام کا مقام و مرتبہ

مولانا مفتی احمد الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

حدیث پڑھنے والوں کے لیے تو بشارتیں ہیں، ان کے لیے حضور اکرم ﷺ نے دعائیں فرمائی ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے میری بات سنی، اسے یاد کیا اور پھر جیسے سنا تھا اسی طرح دوسروں کو پہنچادیا۔ ‘‘

حضور اکرم ﷺ کے الفاظِ قدسیہ جو یاد کرتے ہیں، ان کی حفاظت کرتے ہیں، ان کو دوسروں تک پہنچاتے ہیں، ان کے لیے آپ ﷺ کی یہ دعا ہے اور یہ بہت بڑا شرف ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’اے اللہ! میرے خلفاء پر رحم فرما۔‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے پیغمبر! آپ کے خلفاء کون ہیں؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: جو میری احادیث یاد کرتے ہیں اور لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔‘‘

علمِ دین حاصل کرنے والوں کو جنت کی بشارت دیتے ہوئے حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جو علم کے راستے پر چلتے ہیں اللہ ان کے لیے جنت کا راستہ آسان کردیتا ہے۔ ‘‘ اس بشارت میں جس طرح علم دین حاصل کرنے والے داخل ہیں، اسی طرح وہ لوگ بھی داخل ہیں جو حصولِ علم کے سلسلے میں کسی بھی طرح کی اعانت کرتے ہیں۔

یاد رکھو کہ جب تک کوئی یہ علم دین کسی کے سامنے زانوئے تلمُّذ تہہ کر کے نہیں سیکھے گا، کسی کی باقاعدہ شاگردی اختیار کرکے اس سلسلے میں داخل نہیں ہوگا، اس وقت تک نہ یہ علم حاصل کیا جاسکتا ہے، نہ اس کی برکات وفیوضات سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ صرف مطالعہ کرنے اور تراجم پڑھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، جو ایسا کرتا ہے، وہ ضلالت وگمراہی میں جا پڑتا ہے، اس علم سے فائدہ حاصل کرنے کے بجائے وہ نقصان اُٹھاتا ہے اور بغیر کسی استاذ کے حاصل کیا جانے والا علم بسااوقات الحاد وزندقہ کا سبب بنتا ہے۔

یہ ان مدارس کی برکت ہے کہ وہ اس طرح حضور اکرم ﷺ کے ساتھ جوڑ قائم کرتے ہیں اور وہ علم عطا کرتے ہیں جو ہدایت ورہنمائی کا سبب بنتا ہے، جس سے دنیا اور آخرت دونوں سنورتی ہیں، ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے یہ دینی مدارس جو شاخیں ہیں ، یہ اسلام کے قلعے ہیں، جو دینِ اسلام اور ایمان کی حفاظت کررہے ہیں۔ 

دینی مدارس کے قیام کا مقصدہی یہ تھاکہ باطل قوتوں کا مقابلہ کیا جائے اور لوگوں کے دین وایمان کی حفاظت کی جائے اور میں یہ کہوں تو مبالغہ نہ ہوگا: آج ہمیں جو کلمہ ’’لا إلٰہ إلا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ پڑھنا نصیب ہوا ہے اور ہم مومن ہیں، یہ سب ان دینی مدارس کی برکت ہے۔

اگر یہ دینی مدارس نہ ہوتے تو نہ جانے ہمارا کیا حشر ہوتا۔ آج جہاں کہیں بھی اسلام کی کرن نظر آتی ہے وہ سب ان مدارسِ دینیہ کی رہینِ منت ہے۔ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ فرمایا کرتے تھے: آج کل بیعت کرنا اور کسی اللہ والے کی صحبت میں بیٹھنا فرضِ عین ہے، کیونکہ سب سے بڑا فرض ایمان ہے، اس کی حفاظت اللہ والے کی صحبت اختیار کیے بغیر ممکن نہیں۔ 

یہ اصلاح کا بہت بڑا ذریعہ ہے، اس سے انسان اللہ تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ اللہ والے کی صحبت میں بیٹھ کر انسان بہت جلد وہ منازل طے کرلیتا ہے جو سوسال عبادت سے بھی طے نہیں کرسکتا، اسی لیے کہا گیا ہے: ’’کسی اللہ والے کی صحبت میں ایک ساعت بیٹھنا سوسالہ مقبول اور بغیر دکھاوے کی عبادت سے بہتر ہے۔‘‘