سندھ ہائی کورٹ نے ایف بی آر کی جانب سے سیلز ٹیکس رجسٹریشن معطل کرنے کے معاملے پر درخواست گزار سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے۔
عدالت میں ایف بی آر کی جانب سے سیلز ٹیکس رجسٹریشن معطل کرنے کے معاملے پر سماعت ہوئی۔
جسٹس عبدالرحمٰن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ صرف غیر قانونی قرار دینا کیسے کافی ہوگا؟ اگر ساتھ ہدایات نہ ہوں تو یہ کیسے کام کرے گا؟ میری رائے میں صرف غیر قانونی قرار دینا کافی نہیں ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ ڈکلیئریشن ریگولر بینچ کا اختیار ہے۔
اس پر جسٹس عبدالرحمٰن نے کہا کہ اگر ڈیکلیئریشن کے ساتھ ہدایات جاری کیں تو ہم اپنے اختیارات سے تجاوز کریں گے۔
عدالت نے سینئر وکلاء رضا ربانی اور انور منصور خان کو معاونت کے لیے روسٹرم پر طلب کر لیا۔
انور منصور خان ایڈووکیٹ نے بتایا کہ مجھے ریگولر بینچ نے آئینی بینچ کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی اور آئینی بینچ نے واپس ریگولر بینچ سے رجوع کرنے کی ہدایت کی۔
اُنہوں نے مزید بتایا کہ کوئی بھی وکیل اپنی آسانی کے لیے ریگولر یا آئینی بینچ کے سامنے کیس پیش کرسکتا ہے۔
جسٹس عبدالرحمٰن نے استفسار کیا کہ اگر ایسا ہے تو پھر آئینی بینچ کا کیا فائدہ ہے؟
انور منصور خان ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ آئینی ترمیم کے بعد بھی ریگولر بینچ کا دائرہ اختیار موجود ہے۔
اُنہوں نے مزید بتایا کہ چیف جسٹس کا فیصلہ بہت واضح ہے کہ ریگولر بینچ کا دائرہ اختیار موجود رہنا چاہیے۔
رضا ربانی نے عدالت کو بتایا کہ آئینی معاملات کے لیے بہت وقت چاہیے ہوتا ہے، آئینی معاملات کو تیز رفتاری سے نمٹانے کے لیے آئینی بینچز بنائے گئے ہیں۔
جسٹس عبدالرحمٰن نے کہا کہ امید ہے یہ مسئلہ جلدی حل ہوگا ورنہ دیوانی مقدمات بہت متاثر ہو رہے ہیں۔
تمام دلائل سننے کے بعد جسٹس فیصل کمال عالم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار نے صرف غیر قانونی قرار دینے کی استدعا کی ہے، اس لیے ہم اس نوٹی فکیشن کو معطل نہیں کرسکتے۔