• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیارے بچو! ہم نے ابنِ آس محمد کا بچوں کے لیے لکھا ناول ’’ جاسوسی چکر ‘‘ قسط وار شروع کیا ہے جس کی پہلی قسط24 نومبر 2024 کو شائع ہوئی تھی۔ چوں کہ دوسری قسط کی اشاعت کافی وقفہ آگیا، اس لیے ہم پہلی قسط کا خلاصہ شائع کر رہے ہیں، تاکہ دوسری قسط پڑھتے ہوئے پہلی قسط یاد آجائے۔

پہلی قسط کا خلاصہ:

ساحل سمندر کے قریب پوش آبادی میں سناٹے کا راج تھا کاسٹیبل جان محمد کی ڈیوٹی ساحل کے قریب چوکی پر تھی۔ رات بارہ بجے ڈیوٹی ختم ہونے پر چوکی کا چارج دوسرے کانسٹبل کو سونپ کر وہ پیدل اپنے گھر جارہا تھا جو قریب ہی تھا۔ اندھیرے میں اسے کچھ نظر نہیں آرہا تھا کہ اتفاق سے ایک کار وہاں سے تیزی سے گزری تو اس کی ہیڈ لائٹس کی روشنی میں سڑک کے کنارے ایک شخص کو نیچے پڑے نوجوان کو ہوش میں لانے کی کوشش کر رہا تھا، اُس کا چہرہ جھکا ہوا تھا۔ 

جان محمد نے گرج دار آواز میں پوچھا،’’ کیا کررہے ہو۔ اجنبی نے سر اُٹھائے بغیر کہا کہ، میرا دوست بے ہوش ہوگیا ہے شاید ہارٹ اٹیک ہوگیا ہے۔ ’’تم لوگ اس وقت یہاں کیا کررہے تھے‘‘ جان محمد نے پوچھا۔ ٹیکسی کا انتظار، اچانک بارش ہوگئی ابھی وہ بتا رہا تھا کی کہ اسی وقت ایک ٹیکسی وہاں سے گزری۔ نوجوان شخص نے چلا کر کہا’’ ٹیکسی‘‘۔ 

ٹیکسی ڈرائیور نے بھی ہیڈ لائٹس کی روشنی میں انہیں دیکھ کر ٹیکسی روک دی۔ کانسٹبل کی مدد سے اُس شخص نے بے ہوش نوجوان کو پچھلی نشست پر بٹھایا۔ جان محمد نے ساتھ چلنے کو کہا تو اُس نے منع کردیا، پھر اس نے گھبرائے ہوئے لہجے میں ڈرائیور کو ہاسپٹل چلنے کو کہا۔ جان محمد کچھ دیر ٹیکسی کو جاتے دیکھتا رہا، پھر ایک دم اسے احساس ہوا کہ اُس نے دونوں کے چہرے تو دیکھے ہی نہیں۔ اس کے بعد کیا ہو آگے پڑھیں۔

’’ بارش کو بھی آج ہی ہونا تھا ۔۔‘‘ علی نے بے زاری سے کہا ۔

’’ تو ۔۔؟ آج نہ ہوتی تو کب ہو تی ۔۔؟‘‘ عمر نے پوچھا ۔

’’ تھوڑی دیر بعد شروع ہوجاتی ۔۔ہم گھر تو پہنچ جاتے ۔‘‘

’’ تو کیا تمہارے شیڈول کے حساب سے ہوتی ہے بارش۔۔؟‘‘ عمر نے مسکرا کر کہا۔

’’ میرے شیڈول کے حساب سے نہیں تو کم از کم اپنے شیڈول کے حساب سے تو ہونا چاہیے۔‘‘

’’ کیا مطلب ہوا اس احمقانہ بات کا ۔۔؟‘‘

’’یہ احمقانہ بات نہیں ہے۔ آج محکمہ موسمیات نے بارش کی پیشن گوئی نہیں کی تھی۔ کل سے بارش کا سلسلہ شروع ہونے کا اعلان کیا تھا۔ یاد نہیں خبروں میں بتایا جارہا تھا ۔۔کہ کل سے شہر میں وقفے وقفے بارشوں کا سلسلہ شروع ہونے کا امکان ہے ۔‘‘

عمر نے ہنس کر کہا ،’’ بارش کے فرشتے نے محکمہ موسمیات کا اعلامیہ نہیں پڑھا ہوگا ۔‘‘

’’ پاگل ہوگئے ہو کیا جو ایسی فضول بات کر رہے ہو ۔‘‘ عمر نے منہ بنا کر کہا ۔

’’ اس میں فضول بات کیا ہے ۔۔؟‘‘

’’فرشتے بھی بھلا اخبار پڑھتے ہیں ۔۔؟‘‘

’’ تو۔۔ اخبار کیا صرف شیطان پڑھتے ہیں ۔۔؟‘‘ علی زچ آگیا۔

’’ شاید پڑھتے ہوں گے میں نے تمہیں ناشتے کی میز پر روز اخبار پڑھتے دیکھا ہے ۔‘‘ خلاف توقع آج عمر جانے کیوں شوخ ہورہا تھا۔

’’ یار بس کرو ۔۔میں بور ہو رہا ہوں، اس و قت میں احمقانہ باتوں کے موڈ میں نہیں ہوں ۔‘‘

عمر نے اس کی کیفیت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کہا ۔’’ احمقانہ باتیں بوریت دور کرنے کے لیے ہی تو کی جاتی ہیں ۔‘‘

’’تم کرو احمقانہ باتیں مجھے پیاس لگ رہی ہےمیں میڈیکل اسٹور سے پانی کی بوتل لے لوں ۔‘ ‘وہ برے برے منہ بناتے ہوئے میڈیکل اسٹور میں چلاگیا۔

وہ دونوں شہر کے مشرقی پوش علاقے میں ایک ویران کمرشل بلڈنگ کے نیچے موجود میڈیکل اسٹور کے چھجے کے نیچے کھڑے تھے۔

دونوں پانی میں شرابور تھے اور اس وقت کو کوس رہے تھے جب وہ آج شام کو گھر سے نکلے تھے۔

اصل میں ان کا ایک دوست بیرون ملک سے آیا ہوا تھا۔ وہ ان کے اسکول میں ہی پڑھتا تھا، مگر ایک سال پہلے وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ بیرون ملک شفٹ ہو گیا تھا۔

دو دن پہلے پورے ایک سال بعد چند دنوں کے لیے اپنے نانا کے گھر واپس آیا تھا، اور آج اس نے چند قریبی دوستوں کی اپنے گھر پر دعوت رکھی تھی۔

جب وہ یہاں تھا تو اپنے والدین کے ساتھ ان کے ہی علاقے میں رہتا تھا، مگر بیرون ملک جاتے وقت انہوں نے وہ گھر فروخت کردیا تھا۔ جب وہ ایک ہفتے کی چھٹیوں پر واپس آیا تو شہر کے مشرقی حصے میں اپنے نانا کے گھر قیام کیا اور یہیں سب کو رات کے کھانے پر بلایا تھا۔ وہ دونوں ایک بائیک پر شام کو اس کے نانا کے گھر پہنچے تھے ،خوب ہلا گلا ہوا۔ سارے ہی دوست جمع ہوئے تھے۔

رات کے کھانے کے بعد وہ باتیں کرنے بیٹھ گئے، چوں کہ کل اسکول میں کسی سیاسی لیڈر کی برسی کی وجہ سے چھٹی تھی اس لیے وہ دیر تک گپیں لگاتے رہے، اور جب وہاں سے روانہ ہوئے تو راستے میں بارش ہوگئی۔

انہوں نے بارش کی پروا نہ کی اور مزے سے آگے بڑھتے رہے، ابھی آدھا فاصلہ بھی طے نہیں ہوا تھا کہ بائیک بند ہوگئی۔ شاید اس کے کاربوریٹر میں پانی آگیا تھا۔ دونوں پریشان ہوگئے۔

دور دور تک سناٹا تھا، اور بارش بھی خلاف توقع تیز ہوگئی تھی۔ اب تو وہ بہت سٹپٹائے۔ ارد گرد اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔

وہ باتیں کرتے ہوئے۔۔ اور بائیک گھسیٹتے ہوئے چل پڑے۔

کچھ آگے جا کر انہیں ایک کمرشل بلڈنگ دکھائی دی، جس کی تمام دکانیں بند تھیں۔ صرف ایک میڈیکل اسٹور کھلا ہوا تھا۔

انہوں نے بائیک میڈیکل اسٹور کے قریب کھڑی کی اور اس کے چھجے کے نیچے کھڑے ہو کر بارش تھمنے اور کسی ٹیکسی کے آنے کا انتطار کرنے لگے۔ انہوں نے میڈیکل اسٹور والے سے بات کر لی تھی کہ وہ اپنی بائیک یہاں کھڑی کرکے ٹیکسی کے ذریعے گھر چلے جائیں گے اور کل دن میں بائیک لے جائیں گے۔

میڈیکل اسٹور والے نے بتایا تھا کہ یہ اسٹور چوبیس گھنٹے کھلا رہتا ہے۔

انہوں نے بارش ہوتے ہی اپنے سیل فون اور کاغذات وغیرہ پولی تھن کی ایک تھیلی میں رکھ کر محفوظ کر لیے تھے۔ چھجے کے نیچے پہنچ کر انہوں نے ایپلی کیشن کے ذریعے کیب منگوانے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ اس وقت قریب میں کوئی کیب نہیں ہے۔

انہوں نے پندرہ کلو میٹر دور موجود کیب کو کال کی تو اس نے جواب دیا۔

’’ بارش بہت تیز ہورہی ہے ۔۔آدھا شہر اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے ۔۔سڑکوں پر پانی کھڑا ہے ۔۔میں اتنی دور نہیں آسکتا ۔‘‘

میڈیکل اسٹور والا ایک بھلا نوجوان تھا، اس نے انہیں چائے کی پیش کش کی۔ وہ اسٹور میں ہی چائے بنا رہا تھا، انہوں نے شکریہ کے ساتھ چائے کی دعوت قبول کرلی اور پھر چائے پینے کے بعد اب چھجے کے نیچے کھڑے بور ہو رہے تھے ۔

گھر فون کر کے وہ ابو جی اور امی جی کو صورت حال بتا ہی چکے تھے۔

ابو جی نے کہا ۔’’ میں لینے آتا ہوں تمہیں ۔۔‘‘

انہوں نے انکار کردیا اور کہا ۔’’ آپ سکون سے گھر پہ رہیں، ہمیں کیب مل جائے گی پریشان نہ ہوں ۔۔‘‘

علی پانی کی بوتل لایا تو عین اسی وقت انہیں کسی گاڑی کی ہیڈ لائٹ دکھائی دی۔

’ ’ شاید کوئی ٹیکسی آرہی ہے۔‘‘

’’ تمہیں کیسے پتا ۔؟‘‘ عمر نے پوچھا۔

’’ میری چھٹی حس کہہ رہی ہے ۔‘‘

’’ تمہاری چھٹی حس ٹیکسیوں پر بھی نظر رکھتی ہے ۔؟‘‘

’ ’ہاں ۔۔اور ۔۔‘ ‘

اس سے پہلے کہ وہ بات پوری کرتا۔ میڈیکل اسٹور کے عین سامنے سڑک کے دوسری طرف ٹیکسی سڑک پر آکرکھڑی ہوگئی۔

ٹیکسی میں سے کوٹ پتلون میں ملبوس ایک نوجوان باہر نکلا اور سر پر ہاتھوں کا چھجا بناتے ہوئے تیزی سے سڑک عبور کر کے میڈیکل اسٹور کی طرف بڑھا۔

بارش اور اندھیرے کی وجہ سے اس کی شکل دکھائی نہیں دی۔

ٹیکسی وہیں کھڑی رہی۔ اس کی لائٹس بھی آن تھیں۔ (جاری ہے)