اسلام آباد (خالد مصطفیٰ)ریفائنریز کے 6 ارب ڈالر کے اپ گریڈ منصوبوں میں رکاوٹیں، پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس استثنیٰ کے معاملے کے حل کیلئے وزیراعظم سے مداخلت کی درخواست۔ تفصیلات کے مطابق آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل (او سی اے سی)کے پلیٹ فارم کے تحت پانچ ریفائنریز ایک آئل پائپ لائن اور22آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس استثنیٰ کے معاملے کے حل کے لیے آخری حربے کے طور پر وزیراعظم شہباز شریف سے مداخلت کی درخواست کردی۔ یہ معاملہ مالی سال 25 کے مالیاتی بل میں لاگو کردہ ایک بجٹی اقدام ہے جس نے ریفائنریز کے 6 ارب ڈالر کے اپ گریڈ کے منصوبوں کے آغاز کو عملی طور پر روک دیا ہے۔ 15جنوری 2025 کو وزیر اعظم کو بھیجے گئے او سی اے سی کے خط میں پاک-عرب ریفائنری کمپنی (پارکو) ، اٹک ریفائنری لمیٹڈ (اے آر ایل)، نیشنل ریفائنری لمیٹڈ (این آر ایل)، پاکستان ریفائنری لمیٹڈ (پی آر ایل) اور سنرجیکو پی کے لمیٹڈ (سی پی ایل) نے لکھا کہ فنانس ایکٹ 2024-25 نے پیٹرولیم مصنوعات کے سیلز ٹیکس کی حیثیت کو صفر کی درجہ بندی سے مستثنیٰ سپلائیز میں تبدیل کر دیا جس کی وجہ سے ان پٹ سیلز ٹیکس کے دعووں کی منظوری نہیں دی گئی، جس سے آپریشنل اور کیپٹل لاگت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ سیلز ٹیکس کے قانون میں تبدیلی ہمارے طے شدہ اپ گریڈ کے منصوبوں، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، اور روزمرہ کے کاموں کی مالی عملداری کو شدید متاثر کر رہی ہے۔ اس استثنیٰ کے جاری رہنے کے نتیجے میں منافع میں نمایاں کمی آئے گی اور صنعت پر شدید مالی دباؤ پڑے گا۔ یہ ملک بھر میں پیٹرولیم مصنوعات کی بلاتعطل فراہمی کے لیے ضروری سرمایہ دارانہ منصوبوں کی پیشرفت اور پائیداری کو خطرے میں ڈال دے گا اس طرح براؤن فیلڈ ریفائننگ اپ گریڈیشن پالیسی کے مقاصد کو ناکام بنا دے گا جسے اگست 2023 میں آپ کی متحرک قیادت میں حکومت نے منظور کیا تھا۔ جب او سی اے سی کے چیئرمین عادل خٹک سے رابطہ کیا گیا، جو اٹک ریفائنری لمیٹڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر بھی ہیں، تو انہوں نے دی نیوز کو بتایا کہ ریفائنریز اپ گریڈیشن پالیسی پر مشاورت دسمبر 2019 میں شروع کی گئی تھی، پہلے مسودے کو مارچ 2021 میں حتمی شکل دی گئی اور اگست 2021 میں کابینہ کمیٹی برائے توانائی کو پیش کیا گیا۔ اگست 2023 میں پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے اس کی منظوری تک مزید دو سال لگے۔ عادل خٹک کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے پالیسی پر عمل درآمد آج تک کسی نہ کسی وجہ سے تعطل کا شکار ہے جس کی سب سے بڑی رکاوٹ فنانس ایکٹ 2024میں پیٹرولیم مصنوعات کو سیلز ٹیکس سے استثنیٰ ہے جس نے ریفائنریز کو ان پٹ مرحلے پر ادا کیے جانے والے سیلز ٹیکس کا زیادہ تر دعویٰ کرنے سے محروم کر دیا ہے جس سے نہ صرف ان کے اپ گریڈیشن کے منصوبے ناقابل عمل ہیں بلکہ ان کے موجودہ آپریشنز بھی غیر پائیدار ہیں۔ گزشتہ چھ ماہ کے دوران پیٹرولیم ڈویژن، اوگرا اور ایف بی آر میں متعدد میٹنگز ہو چکی ہیں لیکن یہ مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ پی ایم آفس اور ایس آئی ایف سی کی جانب سے دی گئی ہدایات اور ڈیڈ لائن پر بھی توجہ نہیں دی گئی۔ انہوں نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ ریفائنریز اپ گریڈیشن پالیسی کی تشکیل، منظوری اور اب اس پر عمل درآمد میں غیر معمولی تاخیر سے صرف زرمبادلہ کے لحاظ سے تخمینہ پانچ ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ یہ ریفائنریوں کے لیے بہت زیادہ مواقع کے نقصان کے علاوہ ہے۔