اسلام آباد(نمائندہ جنگ /ایجنسیاں) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے ایف بی آر کو6 ارب روپے مالیت کی 1010 گاڑیوں کی خریداری روکنے کی ہدایت کرتے ہوئے اس معاملے پر وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کو خط لکھنے کا فیصلہ کرلیا۔ کمیٹی ارکان نے ایف بی آر حکام پر سخت برہمی کا اظہار کیا‘ سینیٹر فیصل واوڈا کا کہنا تھاکہ یہ بہت بڑا اسکینڈل اور کھلی کرپشن ہے ‘ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے‘ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر یہ گاڑیاں خریدی گئیں تو میں اس معاملے کو نیب اور ایف آئی اے میں لے جاؤں گا۔ایف بی آر کے حکام نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ای سی سی نے ان گاڑیوں کی خریداری کی منظوری دی جو آپریشنل مقاصد کے لیے استعمال کی جانی تھیں‘ خریداری کے لیے پروکیورمنٹ کمیٹی اور ٹیکنیکل کمیٹی تشکیل دی گئی‘یہ عمل پچھلے کئی مہینوں سے شروع کیا گیا ہے اور اسے جلد بازی میں نہیں کیا گیا۔افسران فیلڈ میں جائیں گے توریونیوکلیکشن میں بہتری آئے گی جس پرچیئرمین کمیٹی سلیم مانڈوی والا نے استفسار کیا کہ کیا پہلے فیلڈ افسران ٹیکس لینے سائیکل پر جاتے تھے؟ ۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت ہوا۔ ایف بی آر کی جانب سے 1010 گاڑیوں کی خریداری کا معاملہ سینیٹر فیصل واوڈا نے زبردستی اٹھایا اور پینل نے ایف بی آر کے چیف ایڈمن سے سوال کیا جو اس اقدام کے جواز اور دلیل پر ارکان پارلیمنٹ کو قائل کرنے میں ناکام رہے ۔ کمیٹی ممبران نے سخت اعتراض کیا کہ ای سی سی کی سمری میں 1300cc تک کی گاڑیاں مخصوص کمپنی کو دینے کے لیے کیوں بتائی گئی ہیں اور دوسری بات یہ کہ بعض دیگر کمپنیوں کو فہرست سے کیوں نکالا گیا ہے۔ ایف بی آر کے نمائندے نے موقف اختیار کیا کہ حکومت تبدیلی کے منصوبے کے تحت اپنی آپریشنل صلاحیت کو بڑھانا چاہتی ہے۔ ECC کی طرف سے منظور شدہ سمری کے مطابق ہم 1300cc گاڑیوں کے انجن کی گنجائش سے زیادہ نہیں جا سکتے۔ چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ ایف بی آر کو اس قسم کا کام نہیں کرنا چاہیے اور انہیں ٹھیکہ دیتے وقت شفافیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔ سینیٹر فیصل واوڈا نے کمیٹی کو بتایا کہ ایف بی آر نے رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران 384 ارب روپے کے شارٹ فال کے عوض 6 ارب روپے کی گاڑیاں دے کر اپنے حکام کو انعامات سے نوازا ہے۔ ایف بی آر بغیر مقابلے کے مہنگی گاڑیاں خرید رہا ہے۔یہ بہت بڑااسکینڈل ہے جسے روکنے کی ضرورت ہے۔ایف بی آر نے 10 جنوری 2025 کو گاڑیوں کی منظوری حاصل کی اور بعد ازاں اسی دن مینوفیکچرر کو پرچیز آرڈر جاری کر دیا۔ اگر ہم اسے نہیں روک سکتے تو کمیٹی کو تحلیل کر دیں۔ہم ایف بی آر کو 6 ارب روپے کی بجائے 10 ارب کی گاڑیاں دیں گے تاہم ایف بی آر کو 384 ارب روپے کے ریونیو شارٹ فال پر قابو پانا چاہیے یا موجودہ شارٹ فال کو کم کرنا چاہیے ۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ کمیٹی خریداری روکنے کے لیے وزیر اعظم کو خط لکھے۔ کمیٹی نے پاکستان کے پسماندہ ڈیجیٹل ادائیگی کے نظام کا معاملہ بھی اٹھایا ۔ ڈیجیٹل ادائیگی کے پلیٹ فارمز کی عالمی کامیابی کے باوجود، بشمول QR کوڈ سسٹم پاکستان ایسی ٹیکنالوجیز کو اپنانے میں پیچھے ہے۔ کمیٹی نے قومی ڈیجیٹل ادائیگی کے بنیادی ڈھانچے کی کمی پر تشویش کا اظہار کیا۔ چیئرمین مانڈوی والا نے زور دیا، "ڈیجیٹل ادائیگی کا نظام پوری دنیا میں کامیابی سے کام کر رہا ہے، اور ہمیں اس شعبے میں بھی پیش رفت کرنی چاہیے۔