• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

190 ملین پاؤنڈ کیس، عمران حکومت کا کردار، دستاویزات میں معاونت ظاہر

اسلام آباد (فخر درانی) کیا نیشنل کرائم ایجنسی اور پراپرٹی ٹائیکون نے 190؍ ملین پاؤنڈز کی وطن واپسی کے معاہدے کو آزادانہ طور پر حتمی شکل دی جس میں عمران خان کی حکومت کی کوئی شمولیت اور سہولت نہیں تھی؟ کابینہ کے منظور شدہ سر بمہر نوٹ سمیت سرکاری ریکارڈ کا جائزہ لیا جائے تو صورتحال اس کے برعکس نظر آتی ہے۔ ٹائیکون کے ساتھ اسپیشل اسسٹنٹ ٹو پرائم منسٹر مرزا شہزاد اکبر کے برطانیہ دورے کا سفری ریکارڈ اور عمران خان کی حکومت میں 20؍ مرتبہ ٹائیکون کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے ہٹائے جانے کے واقعے کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ عمران خان حکومت نے این سی اے اور ٹائیکون کے درمیان معاہدہ کرانے میں سرگرمی کے ساتھ سہولت کاری فراہم کی تھی۔ احتساب عدالت کی جانب سے عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں 14 سال قید کی سزا سنائے جانے کے بعد عمران خان سمیت پی ٹی آئی کی سینئر قیادت نے اسے سیاسی کیس قرار دیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ این سی اے ڈیل میں ان کی حکومت کا کوئی کردار نہیں تھا، اور رقم کی واپسی کا تعلق القادر ٹرسٹ سے نہیں جو ڈیل سے ایک سال پہلے رجسٹرڈ ادارہ تھا۔ تاہم، دی نیوز کی تحقیقات کچھ اور ثابت کرتی ہیں۔ شواہد سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ عمران خان کے دعوے سچ نہیں، ان کی حکومت کی جانب سے ڈیل میں مدد کی باتیں سامنے آ رہی ہیں اور القادر ٹرسٹ اور پاکستان لائے گئے فنڈز پر سنگین نوعیت کے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی نے برطانیہ کی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیا ہے جس میں کہا گیا کہ تصفیہ این سی اے اور پراپرٹی ٹائیکون کے درمیان تھا، جس میں عمران خان یا ان کی حکومت کا کوئی کردار نہیں تھا۔ لیکن کیا عمران خان کی حکومت نے واقعی اس معاہدے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا؟ دی نیوز کی تحقیقات کے نتیجے میں ان دعووں کے برخلاف جو باتیں سامنے آئی ہیں وہ یہاں پیش کی جا رہی ہیں۔ دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان کی حکومت نے این سی اے ڈیل میں نہ صرف پراپرٹی ٹائیکون کو سہولت فراہم کی بلکہ ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکال کر انہیں بیرون ملک سفر کیلئے آزادی میں مدد دی۔ سپریم کورٹ نے اس سے قبل ٹائیکون کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیا تھا، لیکن عمران خان کی حکومت نے انہیں مارچ 2019 سے مارچ 2022 کے درمیان کم از کم 20 بار باہر جانے کی اجازت دی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پراپرٹی ٹائیکون کا نام ای سی ایل پر ہونے کے باوجود مشیر برائے احتساب و داخلہ مرزا شہزاد اکبر کے دور میں کم از کم 6؍ مرتبہ ملک سے باہر سفر کی اجازت دی گئی، شہزاد اکبر کی ٹریول ہسٹری سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اگست 2018سے دسمبر 2019کے درمیان 10بار برطانیہ کا دورہ کیا۔ یہ وہ دور تھا جب این سی اے پراپرٹی ٹائیکون کے اثاثوں اور مالی معاملات کی چھان بین کر رہا تھا۔ شہزاد اکبر اور ٹائیکون کئی مواقع پر ایک ہی وقت میں برطانیہ میں تھے۔۔ مزید ثبوت وزیر اعظم کیلئے سر بمہر نوٹ میں ہے، جسے وفاقی کابینہ نے 3 دسمبر 2019 کو منظور کیا تھا، جو کہ این سی اے کی جانب سے ٹائیکون کے مالی معاملات کی تحقیققات کے دوران ٹائیکون کیلئے حکومت کی سہولت کاری کو نمایاں کرتا ہے۔ نوٹ کے پیرا نمبر تین میں لکھا ہے کہ حکومتِ پاکستان نے اے آر یو کے ذریعے ابتدائی فریزنگ آرڈر میں مدد کی، تاہم، این سی اے اور مدعا علیہان (پراپرٹی ٹائیکون) کی جانب سے عدالت سے باہر تصفیے کا اپنا ہی میرٹ ہے اور این سی اے نے اپنے تئیں اتفاق کیا۔ اسی سیل شدہ نوٹ سے پتہ چلتا ہے کہ این سی اے اور پراپرٹی ٹائیکون کے درمیان معاہدہ عمران خان کی حکومت کی منظوری کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔ نوٹ کے پیرا 10 میں کہا گیا ہے آئین پاکستان کے آرٹیکل (173) اور رولز آف بزنس کے تحت ضرورت کے مطابق اس طرح کے کسی بھی اقدام کیلئے وفاقی حکومت کی منظوری درکار ہوتی ہے جس کے مطابق مصطفیٰ امپیکس کیس کا مطلب وفاقی کابینہ کی منظوری ہے۔ رازداری کے معاہدے پر دستخط کیلئے جو ضمیمہ اول میں پیش کیا گیا ہے اس کی منظوری کابینہ طلب کی جا سکتی ہے۔ یہ معاہدے کو حتمی شکل دینے میں حکومت کے اہم کردار کو واضح کرتا ہے۔ خان حکومت نے مذکورہ رقم کو بطور ترسیلات زر واپس لانے میں بھی مدد کی اور ایف بی آر کو اس پر ٹیکس عائد نہ کرنے کی سفارش کی۔ سر بمہر نوٹ کے پیرا نمبر 10 سے معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ فنڈز پاکستان کے سرکاری خزانے میں واپس بھیجے جا رہے ہیں لہٰذا ایف بی آر اس پر غور کر سکتا ہے۔ وفاقی حکومت کا ارادہ ترسیلات زر کی رقم یا کسی بھی ذریعہ پر ٹیکس لگانا نہیں جس سے رقم بھیجی جا رہی ہے یا بھیجی جائے گی۔ واپس بھیجی گئی رقم کو ترسیلات زر قرار دینے کے علاوہ عمران خان کی حکومت نے ون ہائیڈ پارک پراپرٹی کے حوالے سے پراپرٹی ٹائیکون کو کلین چٹ بھی دی۔ 18 اپریل 2019ء کو اے آر یو نے این سی اے کے کنٹری مینیجر کو ایک خط لکھا، جس میں کہا گیا کہ ٹائیکون نے ٹیکس حکام کو جائیداد کی تفصیلات بتائی تھیں۔ خط میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ ٹائیکون نے صوبائی حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پاکستان میں ان کیخلاف کوئی فوجداری کیس یا انکوائری زیر التوا نہیں۔ تاہم، اس کلین چٹ کو جاری کرتے ہوئے اہم سرکاری محکموں جیسے کہ نیب یا دیگر متعلقہ حکام سے کوئی رائے طلب نہیں کی گئی۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ 24 مارچ 2021 کو بحریہ ٹاؤن اور بشریٰ بی بی کے درمیان ’’ایکنالیجمنٹ آف ڈونیشن‘‘ کے معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے۔ معاہدہ اس بات کی تصدیق ہے کہ پراپرٹی ٹائیکون نے القادر یونیورسٹی کے پروجیکٹ کی عمارت کی مالی اعانت اور تعمیر کی تھی جو 284؍ ملین روپے تھی، یہ رقم القادر ٹرسٹ کی خدمات حاصل کرنے والے ایک پرائیویٹ ایویلیویٹر نے بطور تخمینہ بتائی تھی۔ مزید برآں، ٹائیکون نے اس منصوبے میں مزید تعاون کرتے ہوئے فرنیچر اور فکسچر سمیت مختلف اشیاء فراہم کیں۔ دی نیوز نے مرزا شہزاد اکبر سے اس معاہدے میں سہولت کاری، ای سی ایل سے نام ہٹائے جانے کے احکامات اور ان کے دورہ برطانیہ کی تعداد کے حوالے سے سوالات کیے۔ اس حوالے سے شہزاد اکبر کے جوابات ذیل میں پیش کیے جا رہے ہیں۔ این سی اے کی تحقیقات کے دوران برطانیہ کے اپنے اکثر سفر اور پراپرٹی ٹائیکون کے ساتھ وہاں رہنے کے بارے میں، شہزاد اکبر نے کہا، کسی بھی اسپیشل اسسٹنٹ ٹوُ پرائم منسٹر یا مشیر کے رولز آف بزنس 1973 کے مطابق سرکاری سفر (گھریلو اور بین الاقوامی) کا پتہ کابینہ ڈویژن کے ریکارڈ سے دیکھا جا سکتا ہے، کیبنٹ ڈویژن کا ریکارڈ مجھے ریفرنس میں نظر نہیں آتا۔ آئی بی ایم ایس کے مطابق سفری تاریخ صرف ایک شخص کے سفر کو ظاہر کرتی ہے۔ حکومت کے ساتھ اپنے دور میں، میں نے کئی مواقع پر سرکاری اور نجی دوروں میں بیرون ملک سفر کیا، تاہم آپ کے سوال کا واضح جواب یہ ہے کہ میں نے ٹائیکون کے ساتھ سفر نہیں کیا۔ برطانیہ کے میرے دوروں کے دوران بہت سے لوگ ایسے ہوں گے جن کے پاکستان کے مختلف محکموں کے ساتھ معاملات زیر التوا تھے، مجھے یقین نہیں کہ یہ بھی ایک اتفاق ہو نواز شریف، شہباز، سلمان شہباز، یا اس معاملے میں الطاف حسین بھی لندن میں تھے۔ جب میں حکومت میں تھا تو ہر ایک کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مسائل تھے اور کچھ کے پاس ایسے ہی اے ایف اوز بھی تھے جو این سی اے نے جاری کیے تھے اور پھر واپس بھی لے لیے تھے، اب اسے اتفاق نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟ پراپرٹی ٹائیکون کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے بارے میں، انہوں نے کہا، ای سی ایل کے معاملات وزارت داخلہ سے جڑے ہیں اور اس ضمن میں ہر طرح کی اجازت وزارت داخلہ (یعنی وزیر داخلہ نہ کہ مشیر) یا پھر ای سی ایل پر کابینہ کی ذیلی کمیٹی دیتی ہے۔ اگرچہ میں ایک ممبر تھا (براہ کرم نوٹ کریں کہ اسپیشل اسسٹنٹ ٹوُ پرائم منسٹر / مشیر کے پاس رولز کے تحت ایگزیکٹو اتھارٹی نہیں اور وہ صرف مشوہر دینے کے سوا کوئی اور کام نہیں کر سکتے)۔ لہٰذا میں نے ایسی کسی اجازت کو منظور نہیں کیا کیونکہ اسپیشل اسسٹنٹ کے پاس ایسی کوئی اتھارٹی نہیں۔ 190؍ ملین پاؤنڈز کیس میں کسی سرکاری ادارے سے مشاورت نہ کرنے کے حوالے سے سوال پر شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ احتساب عدالت کے فیصلے میں قانون اور شواہد کی کوئی طاقت نہیں اور ججز خود اعتراف کرتے ہیں کہ پراسیکیوشن کے کیس میں بہت سے تضادات اور کوتاہیاں ہیں اور جرم ثابت نہیں ہوتا۔ انکوائری کے دوران نیب میرا موقف لینے میں ناکام رہا۔ میں نیب کی انکوائری کے آغاز سے ہی اسے خط لکھ رہا ہوں اور تمام خطوط اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر بھی پوسٹ کر رہا ہوں۔ نیب کی طرف سے کسی مصروفیت کے بغیر میں نے ڈبلیو پی 3428/2022 (مرزا شہزاد اکبر بمقابلہ ایف او پی) کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ کے روبرو کال نوٹسز کا سہارا لیا۔ یہ اب تک زیر التوا ہے، نیب میرا موقف لے رہا ہے اور نہ ویڈیو لنک سے مجھ سے پوچھ گچھ کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نیب کو حقائق جاننے میں دلچسپی نہیں، بلکہ عمران خان کو سزا دینے میں دلچسپی ہے۔ اے آر یو کے گمشدہ ریکارڈ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ ایک اور خیالی بات ہے جس کا مجھ پر الزام ہے۔ نام نہاد انکوائری یک طرفہ تھی اور مجھے اور ضیا نسیم کو اس انکوائری کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ ویڈیو لنک کے ذریعے ہم سے پوچھ گچھ کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا، 2022ء سے کہہ رہا ہوں۔ میں نے 24 جنوری 2022 کو استعفیٰ دیا، اور ریکارڈ کے مطابق جو کچھ جو کچھ بھی اداروں کے حوالے کرنے کیلئے ریکارڈ موجود تھا وہ دیدیا تھا۔ اس وقت تک کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا جب تک کہ نئی حکومت میرے اور عمران خان کے خلاف من گھڑت کیس نہیں بنانا چاہتی۔ یہ بھی کہوں گا کہ اسپیشل اسسٹنٹ یا چیئرمین اے آر یو کوئی ریکارڈ کیپر نہیں، اور قواعد کے مطابق ایسے افراد ہیں جنہیں ریکارڈ رکھنے کا کام سونپا جاتا ہے، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ الزام صرف اس شخص پر عائد کیا جا رہا ہے جس پر الزام بنتا ہی نہیں۔
اہم خبریں سے مزید