• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ بحث برسہا برس سے جاری تھی کہ چین بہت جلد امریکہ کو چاروں شانے چت کر کے دنیا کی عظیم ترین طاقت کا لقب اپنے نام کرلے گا۔لیکن میں اس دعوے کے حوالے سے کئی طرح کی تشکیک اور ابہام کا شکار رہا۔میرا استدلال یہ تھا کہ چین نے معیشت کے میدان میں بہت ترقی کی ہے لیکن علم و فکر کے اعتبار سے ابھی بہت پیچھے ہے ۔ایجادات اور نت نئی مصنوعات پر ابھی تک امریکہ کی ہی اجارہ داری ہے۔ بلا شبہ نقل کرنے میں چین نے منفرد مقام حاصل کیا ہے ،دنیا کا کوئی بھی آلہ ،ہتھیار، اوزار ،کھلونا یا انوکھی ترین شے ایک بار چین پہنچ جائے تو ہو بہو اس جیسی نقول باآسانی تیار کی جا سکتی ہیں مثلا ً اب آئی فون سمیت کئی مصنوعات کی پیداوار چین میں ہو رہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا چین اس نوع کی حیران کن اشیاء نقل کیے بغیر متعارف کرواسکتا ہے؟جب تک چین تخلیق کی طرف آگے نہیں بڑھتا تب تک یہ کہنا دشوار ہے کہ امریکہ سپر پاور کے ٹائٹل سے محروم ہو سکتا ہے ۔لیکن گزشتہ ہفتے ایک ایسی پیشرفت ہوئی جس نے اس بحث کو ایک نیا رُخ دیا اور اب اقبال کا مصرعہ حقیقت کے قریب ترین محسوس ہو رہا ہے کہ ’’گراں خواب چینی سنبھلنے لگے۔‘‘

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ آج کل ہر طرف مصنوعی ذہانت کے چرچے ہیں۔ ایک دور میں فضائوں کو مسخر کرنے کی دوڑ شروع ہوئی، امریکہ اور روس کے درمیان خلائی مشن بھیجنے کا مقابلہ ہونے لگا پھر جوہری طاقت کے حصول کی لڑائی سامنے آئی اور اب مصنوعی ذہانت کے میدان میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ امریکہ مصنوعی ذہانت کے شعبہ میں اس قدر آگے نکل چکا تھا کہ اس کا مقابلہ کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن دکھائی دے رہا تھا اور پھربائیڈن انتظامیہ نے ان Chipsکی چین کو برآمد پر پابندی عائد کر دی جو چیٹ باٹ تیار کرنے کیلئے ناگزیر سمجھی جاتی ہیں۔ یہ Chipsایک امریکی کمپنی Navidiaتیار کرتی ہے ۔جس طرح جوہری طاقت کے حصول کیلئے افزودہ یورینئم اور دیگر آلات پر پابندی لگا دی گئی تھی ،یہ بھی اسی طرح کا فیصلہ تھا۔ مگر نامساعد حالات کے باوجود چین نے امریکہ کے مقابلے میں اپنا چیٹ باٹ تیار کرنے کے منصوبے پر کام جاری رکھا۔ اب تک کئی چیٹ باٹ سامنے آچکے تھے جن میں Open AIکا چیٹ جی پی ٹی،Aamazonکا Alexa،Perplexity AI،Gemini،Microsoft Copilot اور Botpress شامل ہیں۔جب چینی کمپنی Baidu گزشتہ برس اپنا پہلا چیٹ باٹ سامنے لائی تو دنیا بھر میں اس کا مذاق اُڑایا گیا کیونکہ یہ کسی لحاظ سے امریکی چیٹ باٹ کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ مگر چین میں مصنوعی ذہانت کے شعبہ میں تحقیق کا سلسلہ جاری رہا۔ جس دن نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف لینا تھا، اسی روز یعنی 20جنوری 2025ء کو چین نے اپنا چیٹ باٹ ’’ڈیپ سیک‘‘ متعارف کروا دیا۔ اس چیٹ باٹ کی خاص بات یہ تھی کہ اسے محدود وسائل کے ساتھ تیار کیا گیا مگر یہ مہنگے ترین چیٹ باٹس کے مقابلے میں زیادہ بہتر کاکردگی کا حامل ہے۔ مثال کے طور پر چیٹ جی پی ٹی 4کی تیار ی پر 100ملین ڈالر خرچ ہوئے جبکہ چین نے 6ملین ڈالر سے بھی کم بجٹ میں ڈیپ سیک تیار کر لیا۔ اوپن اے آئی کے چیٹ جی پی ٹی 4کی تیاری کیلئے Nvidiaکمپنی کی 25000چپس استعمال ہوئیں مگر چین کے چیٹ باٹ Deep seekکو بنانے کیلئے محض 2000چپس سے کام چلایا گیا۔ چین کے اس چیٹ باٹ نے مصنوعی ذہانت کی دنیا میں ہلچل مچا دی۔ چند ہی دنوں میں بڑے برج اُلٹ گئے اور ’’ڈیپ سیک‘‘ سب کو پچھاڑ کر پہلے نمبر پر آچکا ہے۔ امریکہ نے کئی سال کی مسلسل محنت سے مصنوعی ذہانت کی جو عظیم الشان سلطنت قائم کی تھی وہ اس بھونچال کے سبب زمین بوس ہو چکی ہے۔ ایلون مسک سمیت مصنوعی ذہانت کے شعبہ میں سرمایہ لگانے والوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں اور کیوں نہ ہوں، سب کچھ مُٹھی میں بند ریت کی مانند پھسلتا چلا جارہا ہے۔ سائبر حملوں اور ہیکنگ کے باوجود ’’ڈیپ سیک‘‘ کی برق رفتار پیشرفت کو نہیں روکا جا سکا۔ وہ کمپنیاں جنہوں نے مصنوعی ذہانت کے شعبہ میں اجارہ داری قائم کرنے کیلئے کھربوں روپے لگائے تھے ،ان کے حصص کی قیمتیں مسلسل گراوٹ کا شکار ہیں۔ امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق Nvidiaنامی امریکی کمپنی کے شیئرز کی مالیت ایک دن میں 17فیصد کم ہوگئی جس کا مطلب ہے 600ملین ڈالر کا نقصان۔ اسی طرح BroadComکے شیئرز کے نرخ 17.4فیصد کم ہو گئے، گوگل کی مالک کمپنی Alphabetکے شیئرز میں 4فیصد کمی ہوئی جبکہ مائیکرو سوفٹ نامی کمپنی کے شیئرز 2.14فیصد گر گئے۔ صرف امریکہ ہی نہیں پورپی ممالک کی کمپنیوں کو بھی چین کے بنائے ہوئے چیٹ باٹ ’’ڈیپ سیک‘‘ کی وجہ سے بھاری معاشی نقصان اُٹھانا پڑ رہا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ چین نے ’’ڈیپ سیک‘‘کے ذریعے دھماکہ کر کے مصنوعی ذہانت کے میدان میں امریکی ورلڈ آرڈر کو سبوتاژ کر دیا ہے۔ ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ امریکی کمپنیوں کے اس دعوے کے قلعی بھی کھل گئی ہے کہ چیٹ باٹ تیار کرنے کیلئے بہت بڑا سرمایہ درکار ہوتا ہے۔ ’’ڈیپ سیک‘‘ کا چیٹ باٹ R1امریکی چیٹ باٹ کے مقابلے میں 50گنا سستا ہے جس کی تفصیل میں پہلے ہی بتاچکا ہوں۔

دوست ممالک کی کامیابی پر خوشیاں منانے میں کوئی حرج نہیں مگر جب میں پاکستانیوں کو ’’ڈیپ سیک‘‘ کی کامیابی پر دھمال ڈالتے دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے نہیں بلکہ پڑے ہیں؟ دنیا میں دو بڑی طاقتیں تھیں، سویت یونین اور امریکہ ۔روس کو شکست ہوئی تو امریکہ سپر پاور بن گیا ،اب اگر امریکہ کمزور ہوگا تو چین سپر پاور بن جائے گا مگر ہمارے دن کب بدلیں گے؟ ہم کب بیگانی شادیوں میں ناچ ناچ کر گھنگرو توڑتے رہیں گے؟ گراں خواب چینی تو کب کے سنبھل چکے ،ہم ابھی تک کیوں لڑکھڑا رہے ہیں؟ اس پر ذرا نہیں بہت سا سوچئے اور آگے بڑھئے، اس نیو ورلڈ آرڈر میں اپنا نیا کردار متعین کرنے کیلئے جدوجہد کیجئے ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔

تازہ ترین