وہ باتیں کرتے ہوئے ۔۔اور بائیک گھسیٹتے ہوئے چل پڑے۔
کچھ آگے جا کر انہیں ایک کمرشل بلڈنگ دکھائی دی، جس کی تمام دکانیں بند تھیں۔ صرف ایک میڈیکل اسٹور کھلا ہوا تھا۔
انہوں نے بائیک میڈیکل اسٹور کے قریب کھڑی کی اور اس کے چھجے کے نیچے کھڑے ہو کر بارش تھمنے اور کسی ٹیکسی کے آنے کا انتطار کرنے لگے۔ انہوں نے میڈیکل اسٹور والے سے بات کر لی تھی کہ وہ اپنی بائیک یہاں کھڑی کرکے ٹیکسی کے ذریعے گھر چلے جائیں گے اور کل دن میں بائیک لے جائیں گے۔
میڈیکل اسٹور والے نے بتایا تھا کہ یہ اسٹور چوبیس گھنٹے کھلا رہتا ہے۔
انہوں نے بارش ہوتے ہی اپنے سیل فون اور کاغذات وغیرہ پولی تھن کی ایک تھیلی میں رکھ کر محفوظ کر لیے تھے۔ چھجے کے نیچے پہنچ کر انہوں نے ایپلی کیشن کے ذریعے کیب منگوانے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ اس وقت قریب میں کوئی کیب نہیں ہے۔
انہوں نے پندرہ کلو میٹر دور موجود کیب کو کال کی تو اس نے جواب دیا۔’’ بارش بہت تیز ہورہی ہے۔ آدھا شہر اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے۔ سڑکوں پر پانی کھڑا ہے۔ میں اتنی دور نہیں آسکتا ۔‘‘
میڈیکل اسٹور والا ایک بھلا نوجوان تھا ،اس نے انہیں چائے کی پیش کش کی۔ وہ اسٹور میں ہی چائے بنا رہا تھا، انہوں نے شکریہ کے ساتھ چائے کی دعوت قبول کرلی اور پھر چائے پینے کے بعد اب چھجے کے نیچے کھڑے بور ہو رہے تھے۔
گھر فون کر کے وہ ابو جی اور امی جی کو صورت حال بتا ہی چکے تھے۔
ابو جی نے کہا ۔’’ میں لینے آتا ہوں تمہیں ۔۔‘‘
انہوں نے انکار کردیا اور کہا ۔’’ آپ سکون سے گھر پہ رہیں، ہمیں کیب مل جائے گی پریشان نہ ہوں ۔۔‘‘
علی پانی کی بوتل لایا تو عین اسی وقت انہیں کسی گاڑی کی ہیڈ لائٹ دکھائی دی۔
’’شاید کوئی ٹیکسی آرہی ہے۔‘‘
’’تمہیں کیسے پتا ۔؟‘‘ عمر نے پوچھا ۔
’’میری چھٹی حس کہہ رہی ہے ۔‘‘
’’تمہاری چھٹی حس ٹیکسیوں پر بھی نظر رکھتی ہے ۔؟‘‘
’’ہاں ۔۔اور ۔۔‘ ‘
اس سے پہلے کہ وہ بات پوری کرتا۔ میڈیکل اسٹور کے عین سامنے سڑک کے دوسری طرف ٹیکسی سڑک پر آکرکھڑی ہوگئی ۔
ٹیکسی میں سے کوٹ پتلون میں ملبوس ایک نوجوان باہر نکلا اور سر پر ہاتھوں کا چھجا بناتے ہوئے تیزی سے سڑک عبور کر کے میڈیکل اسٹور کی طرف بڑھا۔
بارش اور اندھیرے کی وجہ سے اس کی شکل دکھائی نہیں دی۔
ٹیکسی وہیں کھڑی رہی ۔اس کی لائٹس بھی آن تھیں ۔
’’ لو جی ۔۔اس ٹیکسی میں تو پہلے ہی سواری ہے ۔‘‘
’’ مگر وہ اتر گئی ہے اور اسی طرف آرہی ہے ۔‘‘
’’ آنہیں رہی ۔۔آرہا ہے ۔‘‘ عمر نے جملہ درست کیا ۔
علی نے منہ بنا کر کہا۔
’’ سواری کے طور پر آرہی ہے اور آنے کے طور پر آرہا ہے۔‘‘
’’اس سے بات کر لیتے ہیں کہ یہ ہمیں آگے کسی جگہ ڈراپ کردے جہاں سے ہمیں ٹیکسی مل جائے۔‘‘
’’ ہاں۔ قریب آجائے تو بات کرتا ہوں ۔‘‘ عمر نے کہا۔
مگر وہ نوجان میڈیکل اسٹور کی طرف نہیں آیا ۔بلڈنگ کے برابر والی گلی میں جا کر اندھیرے میں گم ہوگیا۔
’’ارے ۔یہ تو اس طرف چلا گیا ۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے ۔ٹیکسی خالی ہے ۔۔‘‘
’’خالی ہے تو کھڑی ہوئی کیوں ہے۔ شاید سواری نے اسے رک کر انتطار کرنے کا کہا ہوگا ۔‘‘
’’چلو چل کر ٹیکسی ڈرائیور سے بات کر تے ہیں۔‘‘
دونوں تیزی سے چھجے کے نیچے سے نکلے اورسڑکے عبور کرکے دوسری طرف کھڑی ٹیکسی کے قریب پہنچے ۔
ٹیکسی ڈرائیور بے زار شکل بنائے بیٹھا تھا۔
’’ ٹیکسی خالی ہے ۔؟‘‘
ڈرائیور نے بد مزگی سے پیچھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔
’’خالی کیدھر ہے دیکھ نہیں رہے سواری بیٹھی ہے پیچھے ۔‘‘
عمر نے ٹیکسی کے پچھلے حصے میں نظر ڈالی، وہاں ایک نو جوان شاید سورہا تھا۔ اس کی گردن ڈھلکی ہوئی تھی۔
’’یہ تو سورہا ہے شاید ۔‘‘
’’سو نہیں رہا بے ہوش ہو گیا ہے،اس کا ساتھی میڈیکل اسٹور سے اس کی دوا لینے گیا ہے ۔‘‘
عمر اور علی بری طرح چونکے ۔
’’میڈیکل اسٹور ۔۔؟؟ مگر وہ تو میڈیکل اسٹور پر نہیں گیا کہیں اور چلا گیا۔۔‘‘
’’کہیں اور چلا گیا ؟‘ ڈرائیور نے پریشان ہو کر دیکھا ۔
پھر میڈیکل اسٹور کی طرف دیکھا ۔ٹیکسی سے اترنے والا نوجوان وہاں دکھائی نہیں دیا۔
’’ارے وہ کہاں چلا گیا ‘‘ اس نے سٹپٹا کر پوچھا
’’بلڈنگ کے پیچھے ۔‘‘ عمر نے جواب دیا۔
علی پچھلی سیٹ پر بے ہوش نوجوان کی طرف دیکھ رہا تھا ۔
اس نے اچانک کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا۔
’’یہ تو ۔۔یہ تو مر چکا ہے ۔۔گاڑی میں سواری نہیں۔۔ لاش ہے ۔۔‘‘
’’لل۔۔لاش۔؟؟؟‘ ٹیکسی ڈرائیور بوکھلا گیا ۔
’’ہاں لاش۔۔‘‘
’’نن۔۔نہیں ۔۔یہ بے ہوش ہے ۔۔‘‘ اس نے خود بتایا تھا مجھے ۔۔‘‘
عمر اور علی پچھلے دروازے کی طرف بڑھے ۔
’’اچھا ۔۔دیکھتے ہیں ۔۔‘‘
عمر نے دروازہ کھولا ۔اندر ایک پکی عمر کا نوجوان سرڈھلکائے نیم دراز تھا ۔
عمر نے اس کی ناک کے پاس ہاتھ رکھ کر دیکھا ۔پھر اس کی شہ رگ پر انگلی رکھی ۔اور مایوسی سے سرہلاتے ہوئے سیدھا ہوا۔
’’یہ مرچکا ہے ۔۔‘‘
ٹیکسی ڈرائیور کی ہوائیاں اڑنے لگی تھی۔
عمر نے پوچھا۔
’’کون تھا وہ ۔۔جو اس کے ساتھ تھا اور ابھی اتر کر گیا ہے ۔‘‘
’’معلوم نہیں ۔۔مجھے تو چار کلو میٹر پیچھے ملا تھا ،اس کے ساتھ ایک پولیس والا بھی کھڑا تھا ۔انہوں نے کہا کہ اس کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے ۔اسپتال لے جانا ہے ۔۔‘‘
’’پھر ۔۔یہاں کیوں رکے ۔۔؟‘‘
’’وہ بہت گھبرایا ہوا تھا ۔۔کہہ رہا تھا کہ اس کو دوا لے کے دینی ہے ۔۔اس کی جیبوں کی تلاشی لے رہا تھا ۔۔کہ دوا جیب میں ہوگی ۔۔جب نہیں ملی تو اس نے کہا ۔۔میڈیکل اسٹور پر روکو ۔۔دانت کے نیچے رکھنے والی دوا لے آؤں ۔۔پھر وہ چلا گیااتر کر ۔۔‘‘
عمر اور علی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
علی نے ٹارچ جلا کر لاش کا چہرہ دیکھا ۔۔اور اس کے کپڑوں کا جائزہ لیا تو گھبرا کر پیچھے ہٹ گیا ۔ (جاری ہے)