کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیوکے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں میزبان علینہ فاروق شیخ کے سوال حکومت کا ریئل اسٹیٹ سیکٹر پر ٹیکس کم کرنے کا فیصلہ فائدہ مند یا نقصان دہ؟ جبکہ ایک اور سوال اسپیکر ایاز صادق کی امیدیں کسی مثبت پیش رفت کی نشاندہی کررہی ہیں؟کا جواب دیتے ہوئے تجزیہ کارڈاکٹر ساجد امین نے کہا کہ اگر ریئل اسٹیٹ سیکٹر سے ٹیکس واپس لیں گے تو زرعی شعبے پر بھی ٹیکس نہیں لگا پائیں گے،تجزیہ کارعمار حبیب خان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں چاہئے کہ دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کے لئے آسانیاں پیدا کریں جبکہ دوسرے سوال کے جواب میں تجزیہ کارفخر درانی نے کہا کہ مذاکراتی کمیٹیوں کو عمران خان اور وزیراعظم ہی تحلیل کرسکتے ہیں،اسپیکر قومی اسمبلی صرف ثالثی کا کردار ادا کررہے ہیں، تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے کہا کہ مذاکرات سے پہلے بھی امیدیں نہیں تھیں مگر اب مذاکرات باقاعدہ طور پر ختم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ،تجزیہ کارمظہر عباس نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسپیکر کا کردار سہولت کار کا تھا۔ اسپیکر کے پاس پہلے دن سے ہی نوٹیفائی یا ڈی نوٹیفائی کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ تجزیہ کارڈاکٹر ساجد امین نے کہا کہ یہ اسی طرح کا پالیسی ریورس ہے جو ہمارے ہاں بہت عام ہے۔ہم ایک پالیسی دیتے ہیں اور پھر اس کو واپس لے لیتے ہیں۔اس وقت حکومت کے ذہن میں دو چیزیں ہیں ۔ ٹیکس بڑھانے سے ٹیکس اہداف پورے نہیں ہوئے،کیوں کہ غیر دستاویزی ہے کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔حکومت کے خیال میں جی ڈی پی گروتھ ریٹ کوبہت تیزی سے اوپر لے جانے کے لئے یہ ایک اہم سیکٹرہے ۔ اس عمل سے وقتی طور پر تو حکومت کو فائدہ ہوگا مگر طویل مدت میں معیشت کے لئے نقصان دہ ہوگا۔دیگر ٹیکس دہندگان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے کہ وہ ٹیکس کی ادائیگی کیوں کریں۔اگر ریئل اسٹیٹ سیکٹر سے ٹیکس واپس لیں گے تو زرعی شعبے پر بھی ٹیکس نہیں لگا پائیں گے۔ایمنسٹی سے ٹیکس نیٹ کے عمل میں آنے کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ا س وقت2025ء بجٹ تک جانے کے لئے گروتھ ریٹ کو بہتر کرناہے جس کی وجہ سے یہ پالیسیاں آرہی ہیں۔تجزیہ کارعمار حبیب خان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ طویل مدت میں اس عمل سے بالکل نقصان ہوگا۔سرمائے کو ایسی جگہ پر لگا رہے ہیں جہاں پیداواری صلاحیتوں میں اور برآمدات میں اضافہ نہیں ہورہا۔