کراچی (رفیق مانگٹ ) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ پر قبضے کے اعلان پر شدید عالمی رد عمل کا سامنا ہے ، عرب اور مسلم ممالک کیساتھ ساتھ امریکی اتحادیوں نے بھی منصوبے کی مخالفت کردی ،سعودی عرب سمیت عرب ممالک نے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کو ناقابل قبول قرار دے دیا ہے جبکہ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ جبری بے دخلی نسل کشی کے مترادف ہوگی ، حماس، فلسطینی صدر، برطانیہ، روس ، چین ، سعودی عرب ، ایران ، مصر ، فرانس، جرمنی، ترکیہ ، یورپ ودیگر نے مخالفت کردی، دو ریاستی حل کے مطالبےکا اعادہ ،برطانیہ فرانس اور جرمنی کا کہنا ہے کہ غزہ سے جبری بے دخلی قابل قبول نہیں جبکہ اقوام متحدہ نے جبری بے دخلی کو نسل کشی کے مترادف قرار دیا ہے،حماس کے سینیئر رہنما سمیع ابو زہری نے ٹرمپ کی جانب سے غزہ کے باشندوں کو ملک چھوڑنے کے مطالبے کی مذمت کرتے ہوئے اسے افراتفری اور کشیدگی پیدا کرنے کا نسخہ قرار دے دیا ہے۔ایران اور فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ فلسطینی اپنی سرزمین سے کسی طور دستبردار نہیں ہوں گے ۔ روس چین اور دیگر مغربی ممالک نے کہا ہے کہ تنازع کے حل کیلئے دو ریاستی حل ضروری ہے ۔ امریکا میں ریپبلکنز سینیٹرز کرس مرفی اور لندسے گراہم نے بھی ٹرمپ کے منصوبے کی مخالفت کردی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ ہزاروں امریکی فوجیوں کی ہلاکت اور مشرق وسطیٰ میں جنگوں کا باعث بنے گا۔امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق عالمی رہنماؤں نے ٹرمپ کے غزہ منصوبے پر تنقید کی ہے، مشرق وسطیٰ اور یورپ دونوں کے حکام کی جانب سے شدید مذمت کی گئی ہے۔ عرب ممالک نے غزہ سے فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کی کسی بھی تجویز کو مسترد کر دیا ہے، مخالفین کا کہنا ہے کہ نسل کشی کے مترادف ہوگا۔ سعودی عرب نے فلسطینی ریاست کے لئے اپنی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا کہ وہ ایسی ضمانتوں کے بغیر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا عہد نہیں کرے گا۔ ایک عرب اہلکار کے مطابق ٹرمپ کا منصوبہ تشویش ناک ہے لیکن اس کا قطر اور مصر کی ثالثی میں جاری جنگ بندی مذاکرات پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ بی بی سی کے مطابق صدر ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کے حکام لوگوں کی غزہ سے باہر دوبارہ آبادکاری کی تجویز کو انسانی ہمدردی کے اقدام کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ دوسرا کوئی آپشن نہیں کیونکہ غزہ ایک منہدم شدہ مقام ہے۔بین الاقوامی قوانین کے تحت کسی بھی آبادی کو زبردستی کسی اور جگہ پر منتقل کرنا ممنوع ہے اور فلسطینی اور عرب ممالک اس تجویز کو فلسطینیوں کی دربدری اور نسل کشی کے علاوہ کچھ اور نہیں سمجھیں گے۔ گارجین نے لکھا کہ سعودی عرب کسی بھی کوشش کو مسترد کرتا ہے جو فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے مملکت کے موقف کو واضح انداز میں پیش کیا، جو کسی بھی حالات میں کسی بھی قسم کی تشریح کی اجازت نہیں دیتا۔برطانوی وزیرِ اعظم، کیئر اسٹارمر نے کہاانہیں (فلسطینیوں کو) اپنے وطن واپس جانے کی اجازت دی جانی چاہیے، انہیں دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت دینی چاہیے، اور ہمیں اس تعمیر میں ان کے ساتھ ہونا چاہیے تاکہ ہم دو ریاستوں کے حل کی طرف بڑھ سکیں۔جرمن وزیرِ خارجہ، انالینا بیرباک نے کہا کہ غزہ کی پٹی فلسطینیوں کی ہے اور ان کی بے دخلی ناقابلِ قبول اور بین الاقوامی قانون کے خلاف ہوگی۔ یہ نفرت پیدا کرے گا ۔فرانس کے وزارتِ خارجہ کے ترجمان کرسٹوفر لیموین نے کہا فرانس غزہ کی فلسطینی آبادی کے کسی بھی جبری بے دخلی کی مخالفت کرتا ہے، جو کہ بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہو گی یہ مصر اور اردن اور پورے خطے کے لیے ایک بڑے عدم استحکام کا سبب بنے گا۔اسپین کے وزیرِ خارجہ، جوسے مینویل الباریس نے کہا غزہ فلسطینیوں کی سرزمین ہے اور انہیں غزہ میں ہی رہنا چاہیے۔ غزہ اس مستقبل فلسطینی ریاست کا حصہ ہے جس کی اسپین حمایت کرتا ہے۔ مصر کے وزیرِ خارجہ بدر عبد العتی نے کہا کہ فلسطینیوں کو علاقے سے باہر جانے کے بغیر ان منصوبوں پر کام آگے بڑھنا چاہیے۔کریملن کے ترجمان، دمتری پیسکوف نے کہا روس کا خیال ہے کہ مشرق وسطیٰ میں کوئی حل صرف دو ریاستی حل کی بنیاد پر ہی ممکن ہے،یہ وہ نکتہ ہے جو متعلقہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد میں درج ہے، ہم اس کی حمایت کرتے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ یہ واحد ممکنہ آپشن ہے۔چین کی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ تمام فریق جنگ بندی اور تنازع کے بعد کے انتظامات کو اس موقع پر استعمال کریں گے تاکہ فلسطینی مسئلے کو دو ریاستوں کے حل کی بنیاد پر سیاسی تصفیے کی صحیح سمت پر واپس لایا جا سکے۔ترکیہ کے وزیرِ خارجہ حکان فیدان نے کہاٹرمپ کے غزہ پر قبضہ کرنے کے منصوبے پر تبصرے نا قابلِ قبول ہیں۔ فلسطینیوں کو مساوات سے باہر رکھنے کے کوئی بھی منصوبے مزید تنازعات کا سبب بنیں گے۔اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے مطابق یہ بہت ضروری ہے کہ ہم جنگ بندی کے اگلے مرحلے کی طرف بڑھیں، تمام یرغمالیوں اور غیر قانونی طور پر حراست میں لیے گئے قیدیوں کو آزاد کریں، جنگ ختم کریں اور غزہ کی دوبارہ تعمیر کریں، مقبوضہ علاقے سے لوگوں کو جبراً منتقل کرنا یا ان کی بے دخلی کی قطعی طور پر ممانعت ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا کہ فلسطینی اپنی سرزمین، حقوق اور مقدس مقامات سے دستبردار نہیں ہوں گے اور غزہ کی پٹی فلسطین کی ریاست کی سرزمین کا ایک لازمی حصہ ہے ایسے ہی جیسے کہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم ہیں ۔سینئر ایرانی عہدیدار نے کہا ایران فلسطینیوں کی بے دخلی سے متفق نہیں ہے اور اس نے یہ مختلف چینلز کے ذریعے واضح کیا ہے۔آئرش وزیرِ خارجہ، سائمن ہیریس نے کہا ہمیں دو ریاستی حل کی ضرورت ہے، اور فلسطین کے عوام اور اسرائیل کے عوام دونوں کو اپنے اپنے ممالک میں امن و سکون کے ساتھ رہنے کا حق ہے، غزہ کے عوام کو کہیں اور بے دخل کرنے کا کوئی خیال اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں سے واضح طور پر انحراف ہوگا۔آسٹریلوی وزیرِ اعظم، انتھونی البانی نے کہا آسٹریلوی حکومت دو ریاستی حل کی حمایت کرتی ہے۔فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے سیکریٹری جنرل، حسین الشیخ نے کہا کہ دو ریاستی حل، بین الاقوامی قانونی حیثیت اور بین الاقوامی قانون کے مطابق، امن، استحکام اور سلامتی کی ضمانت ہے۔ اسلامی جہاد کا کہنا ہے ٹرمپ کے موقف اور منصوبے ایک خطرناک شدت پسندی ہیں جو عرب اور علاقائی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں، خاص طور پر مصر اور اردن کے لیے ۔اسرائیل کے سابق وزیرِ قومی سلامتی، اٹامار بن غویر نے کہا کہ غزہ سے فلسطینیوں کو ہجرت کرنے کی ترغیب دینا جنگ کے خاتمے کے بعد واحد درست حکمت عملی ہے۔ انہوں نے اسرائیلی وزیرِ اعظم، بنیامین نیتن یاہو سے کہا کہ وہ فوراً اس پالیسی کو اپنائیں۔ڈیموکریٹک اور فلسطینی نژاد امریکی رکن رشیدہ طلیب نے کہا کہ فلسطینی کہیں نہیں جا رہے۔ یہ صدر صرف اس لیے یہ جنونی باتیں کہہ سکتے ہیں کیونکہ کانگریس میں دونوں جماعتوں کا انخلا اور نسل کشی کے لیے فنڈنگ کی حمایت حاصل ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ میرے دو ریاستی حل کے ساتھی آواز اٹھائیں۔ امریکا کے سینیٹر کرس مرفی نے کہا غزہ میں امریکی فوجی ایکشن ہزاروں امریکی فوجیوں کی ہلاکت اور مشرق وسطیٰ میں دہائیوں تک جنگ کا باعث بنے گا۔ یہ ایک برا، بیمار مذاق ہے۔ برازیل کے صدر لوئز انیسو لو لا دا سلوا نے کہا کہ ٹرمپ کا منصوبہ کوئی معنی نہیں رکھتا،فلسطینی کہاں رہیں گے؟ یہ کسی بھی انسان کے لیے ناقابلِ فہم بات ہے۔ اقوامِ متحدہ کی خصوصی رپورٹر برائے مقبوضہ فلسطینی علاقے، نے کہا کہ ٹرمپ کا منصوبہ غیر قانونی، غیر اخلاقی اور بالکل غیر ذمہ دار ہے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے امریکی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے کہا کہ غزہ سے تمام فلسطینیوں کو نکالنا انہیں ایک قوم کے طور پر تباہ کرنے کے مترادف ہوگا ،غزہ ان کا گھر ہے۔