• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’ کیا ہوا۔۔‘‘

لاش کا کوٹ خون میں لت پت ہے۔‘‘

’’ خون ۔۔؟‘‘ ٹیکسی ڈرائیور کی بھی سٹی گم ہو گئی ۔

’’ ہاںاس کو قتل کیا گیا ہے ۔‘‘’’علی۔۔دوڑو ،وہ نوجوان ہی اس کا قاتل ہے ابھی زیاہ دور نہیں گیا ہوگا ۔‘‘ پھر وہ ٹیکسی ڈرائیور کی طرف گھومے ۔’’ تم اپنی ٹیکسی وہاں سامنے میڈیکل اسٹور کے بالکل سامنے روشنی میں کھڑی کرو اور بھاگنا مت، ورنہ تم پھنس جاؤگے۔ تمہاری ٹیکسی میں لا ش ہے جسے قتل کیا گیا ہے ۔‘‘

’’ ٹھیک ہے ۔‘ ‘وہ گھبرا کر بولا ۔

عمر اور علی نے اس طرف دوڑ لگادی جس طرف ٹیکسی سے اترنے والا نوجوان گیاتھا۔ وہ بھاگتے ہوئے میڈیکل اسٹور کے سامنے سے گزرے، دوسری طر ف اندھیرا تھا۔ وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگے، مگر کوئی دکھائی نہیں دیا۔عمر نے ایک طویل سانس لے کر کہا ،’’اس کا مطلب ہے، وہ قاتل ہی تھا ۔لاش ٹیکسی میں چھوڑ کر بھاگ گیا ۔‘‘

علی نےکچھ سوچتے ہوئے کہا کہ،’’ اگر وہ قاتل تھا تو قتل کر کے ٹیکسی میں لاش کے ساتھ کیوں بیٹھا، اسے تو لاش کو وہیں سڑک پر چھوڑ دینا چاہیے تھی۔‘‘

’ ’ہوگی اس کی بھی کوئی وجہ ۔‘‘

’’وہ پولیس والا،ٹیکسی ڈرائیور نے کہا کہ ان کے ساتھ ایک پولیس والا بھی تھا، اگر اس نوجوان کو ٹیکسی میں بیٹھنے سے پہلے قتل کیا گیا ہے تو ۔۔تو ۔۔‘‘ عمر بولتے بولتے رک گیا ۔

’’ تو کیا ۔۔ آگے بھی تو کہو ۔‘‘ علی نے کہا

’’تو وہ پولیس والا بھی اس قتل میں ملوث ہوسکتا ہے۔‘‘

’’ ہاں ہوتو سکتا ہے لیکن وہ بھی اب مشکل ہی ہاتھ آئے ۔‘‘

’’ چلو واپس وہ یہاں چھپ کر ہمارا انتظار نہیں کر رہا ہوگا ‘‘

وہ واپس آئے تو ٹیکسی ڈرائیور اپنی ٹیکسی میڈیکل اسٹور کے سامنے لے آیا تھا اور ایک طرف کھڑا تھر تھر کانپ رہا تھا۔ اس کا رنگ سفید پڑگیا تھا۔میڈیکل اسٹور والا بھی خوف زدہ دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے اسٹور کے سامنے ایک ٹیکسی کھڑی تھی اور اس میں ایک لاش تھی۔

’’ آپ گھبرائیں مت ہم ابھی فون کر کے پولیس اور ایمبولینس کو بلواتے ہیں۔‘‘ عمر نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا ،پھر اس نے فون نکال کر اپنے ابو جی کو فون کیا ۔’’ ہیلو ابو جی! یہاں راستے میں ایک لاش سے ملاقات ہو گئی ہے۔‘‘

’’ لاش ۔۔؟‘‘ احمد صدیقی چونک گئے ۔’’ کیسی لاش ۔۔؟ کس کی لاش ۔۔؟‘‘

عمر نے جلدی جلدی انہیں ساری صورت حال بتائی ۔وہ بولے ۔’ ’ ٹھیک ہے میں ابھی آرہا ہوں۔ پولیس اور ایمبولینس کو بھی بلواتا ہوں تم وہاں کا پورا پتا اور لوکیشن بتاؤ۔‘‘

’’ میں آپ کو واٹس ایپ پہ لوکیشن بھیج رہا ہوں ۔‘‘عمر نے واٹس ایپ پہ لوکیشن بھیجی اور وہ انتظار کرنے لگے۔ کچھ ہی دیر میں ایمبولینس ،پولیس کی گاڑی اور ان کے ابو جی کی گاڑی وہاں پہنچ گئیں ۔

احمد صدیقی نے لاش کا معائنہ کیا ۔’’ چاقو سے وار کیا گیا ہے۔ چاقو سیدھا دل میں پیوست ہو گیا ہے ۔‘‘

انہوں نے انسپکٹر اور دیگر لوگوں کو ہدایات دیں اور اس طرف بڑھ گئے، جہاں میڈیکل اسٹور کا مالک اور ٹیکسی ڈرائیور کھڑے تھے۔

پولیس کی ٹیم نے ابتدائی کارروائی شروع کردی اور لاش کو ایمبولینس میں منتقل کیا جانے لگا۔

کہاں سے بیٹھے تھے یہ لوگ ۔؟‘‘ احمد صدیقی نے پوچھا۔

’’ سر ! اسٹریٹ چھتیس کے پاس سے۔ میں وہاں سے جا رہا تھا تو ایک آدمی اس کے ساتھ نیچے بیٹھا ہوا تھا۔ ایک پولیس والا بھی تھا ان کے ساتھ۔ انہوں نے کہا کہ اسے دل کا دورہ پڑا ہے۔ جلدی اسپتال لے کر جاؤ۔‘‘ ٹیکسی ڈرائیور ساری کہانی سنائی۔

وہ خاموشی سے سنتے رہے۔ پھر عمر اور علی نے انہیں بتایا کہ کس طرح وہ یہاں کھڑے تھے اور کیسے ٹیکسی آکر رکی، اور ایک کوٹ والا اتر کر وہاں اندھیرے میں چلا گیا۔

’’ تم نے اس کی شکل دیکھی تھی ؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔

دونوں نے انکار میں سر ہلادیا۔’’ ہم سمجھے کہ وہ میڈیکل اسٹور کی طرف آرہا ہے، مگر وہ اندھیرے میں دوسری طرف نکل گیا ۔‘‘ عمر نے جواب دیا۔

لاش ایمبولینس میں رکھی جا چکی تھی۔

احمد صدیقی نے سوچتے ہوئے کہا ۔’’ لاش کے سینے میں خنجر گھونپا گیا ہے۔ اس کا جسم ابھی گرم ہے۔ اس کا مطلب ہے قتل ہوئے بہت زیادہ دیر نہیں ہوئی۔

جس وقت خنجر اس کے سینے میں اتارا گیا۔ وہ شاید اسی وقت مر گیا ہوگا لیکن سمجھ میں نہیں آرہا کہ قاتل لاش کو وہیں چھوڑ کر کیوں نہیں بھاگا۔اسے ٹیکسی میں لے کر اس کے ساتھ کیوں روانہ ہوا اور پولیس کانسٹیبل کون تھا جو ان کے ساتھ کھڑا تھا ؟‘‘

عمر اور علی ان کی طرف دیکھنے لگے۔

’’ تمہارا کیا خیال ہے ۔؟‘‘

عمر نے سوچتے ہوئے کہا۔’’ میرا خیال ہے ،کہ قاتل کو بھاگنے کا موقع نہیں ملا ہوگا ۔‘‘

’’ کیا مطلب ۔؟‘‘

’’ مطلب یہ کہ جوں ہی قاتل نے قتل کیا، اسی وقت وہاں پولیس کانسٹیبل آگیا ہو گا اور قاتل نے بہانہ بنایا ہوگا کہ اس کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے ۔۔ پھر وہ ٹیکسی میں بیٹھ گئے ہوں گے۔‘‘

’’ مجھے وہ کانسٹیبل مشکوک لگ رہا ہے۔‘‘ علی نے کہا ۔

’’ کیوں ۔۔؟‘‘

’ ’دیکھیں نا ۔۔اتنی رات کو شدید بارش میں ویران سڑک پر ایک شخص بے ہوش شخص اور ایک نوجوان کو دیکھ کر پولیس کانسٹیبل چونکا نہیں اور انہیں بغیر دیکھے بھالے ٹیکسی میں بٹھا دیا۔۔

جب کہ حالات بتا رہے ہیں کہ قتل سڑک پر ہی ہوا تھا۔ ٹیکسی میں نہیں، اس کو تو ان کے ساتھ جانا چاہیے تھا ۔‘‘

احمد صدیقی بولے ،’’ اگر تم گواہ نہ ہوتے کہ تمہارے سامنے اس کی ٹیکسی سے اتر کر وہاں اندھیرے میں غائب ہوا ہے تو اس ٹیکسی ڈرائیور کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ۔۔خیر ۔۔‘‘

وہ ٹیکسی ڈرائیور کی طرف مڑے ۔’’ ایک بات بتاؤ۔۔جب وہ ٹیکسی میں بیٹھے۔۔ تو اس وقت مقتول ہو ش میں تھا ۔۔؟‘‘

’’ نہیں صاحب،وہ بے ہوش پڑا تھا، اس کے ساتھ جو آدمی تھا وہ بہت گھبرا یا ہوا تھا۔ اس نے کہا کہ اس کے دوست کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ اسے جلدی اسپتال پہنچانا ہے۔ اس کی گھبراہٹ دیکھ کر اور ہارٹ اٹیک کا سن کر میں بھی گھبرا گیا اور زیادہ ان کی طرف دھیان نہیں دیا۔‘‘

’’ پولیس والا۔۔ اس کے ساتھ کیوں نہیں بیٹھا ۔۔؟‘‘

’’ اس نے تو کہا تھا کہ میں بھی چلوں، مگر اس آدمی نے منع کر دیا ۔‘‘

’’ اوہ اس کا مطلب ہے، کانسٹیبل اس قاتل کا ساتھی نہیں ہو سکتا ۔‘‘

’’دیکھنے میں کیسا تھا وہ آدمی ۔؟‘‘عمر نے پوچھا۔

ٹیکسی ڈرائیور نے سوچتے ہوئے کہا ۔’’ اتنا تو میں نے غور نہیں کیا ۔ایک تو اندھیرا تھا اور بارش بھی تیز ہورہی تھی پھر۔ ہارٹ اٹیک کا سن کر میں سچ میں بہت گھبرا گیا تھا ۔‘‘

احمد صدیقی نے ایک طویل سانس لی ۔’’ سمجھ میں نہیں آرہا۔ کانسٹیبل کو کیوں اندازہ نہیں ہو سکا کہ وہ ایک مریض کو نہیں ایک لاش کو ٹیکسی میں سوار کر ا رہا ہے ۔‘‘

علی نے کہا ۔’’ وہی مسئلہ، بارش اور اندھیرے کی وجہ سے شاید ۔‘‘

’’ ہوں ۔۔‘‘ احمد صدیقی نے پر خیال انداز میں سر ہلایا۔

’’ کوئی اور بات جو تمہیں اس نوجوان کے بارے میں یاد ہو ۔کچھ تو بات کی ہوگی اس سے راستے میں ۔؟‘‘

’’ نہیں صاحب، اس نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی وہ تو اپنے دوست کی تلاشی لے رہا تھا۔

’’ تلاشی ۔۔؟؟‘‘

تینوں بری طرح چونکے۔

’’ ہاں صاحب، وہ کہہ رہا تھا کہ یہ دل کا مریض ہے اور شاید اس کی جیب میں اس کی دوائی ہو۔‘‘

عمر نے چونک کر کہا ۔’’ ایک خیال آیا ہے ذہن میں ۔۔‘‘

’’ بولو ۔۔‘‘

’’ میرے ذہن میں ایک کہانی بن رہی ہے۔ وہ دونوں ساتھ تھے۔ اس کا مطلب ہے۔ وہ دوست ہو سکتے ہیں۔

ایک نے دوسرے کو کسی وجہ سے مارا ہوگا اور لاش ٹھکانے لگانے کا سوچ ہی رہا ہوگا کہ وہاں ایک کانسٹیبل آگیا۔

قاتل گھبرا گیا اور بہانہ بنایا کہ اس کے دوست کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔

بارش اور اندھیرے کی وجہ سے کانسٹیبل کو اندازہ نہیں ہوسکا کہ وہاں سڑک پر اسے قتل کیا گیا ہے ۔‘‘

علی نے اس کی بات کاٹ دی ۔’’ اگر کانسٹیبل اس واردات میں اس کا شریک نہیں تھا تو ۔۔‘‘

’’لیکن مجھے نہیں لگتا کہ کوئی کانسٹیبل وردی میں ہو اور کسی قتل میں شریک ہو کر ٹیکسی میں قاتل اور مقتول کو بٹھا کراسپتال بھیجے ۔‘‘

’’ تم ٹھیک کہہ رہے ہو ۔۔آگے کہو ۔۔‘‘

’’کانسٹیبل نے مقتول کو ٹیکسی میں بٹھوایا ،وہ یہی سمجھا ہوگا کہ واقعی میں اس کے دوست کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ ٹیکسی میں قاتل اس کی تلاشی لے رہا تھا۔ اسے تو معلوم تھا کہ مقتول۔۔ جس کا نام بھی ہمیں نہیں معلوم ہے کو ہارٹ اٹیک نہیں ہوا۔ اس کا مطلب ہے۔ وہ اس کی تلاشی کسی خاص چیز کو تلاش کرنے کے لیے لے رہا تھا ۔۔‘‘عمر نے پرجوش لہجے میں کہا۔ (جاری ہے)