• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

24کروڑ عوام زنک ،فولاد ،وٹامن اے اورڈی کی کمی کا شکار

لاہور ( محمد صابر اعوان سے ) پاکستان کی 24کروڑ عوام بیشتر اجناس آٹا، گھی، تیل اور چاولوں میں اہم غذائی اجزاء زنک، فولاد، وٹامن اے اور ڈی سے محروم ہیں، پنجاب میں 52 فیصد بچے خون ، 49 فیصد وٹامن اے اور 70 فیصد سے زائد وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہیں، جبکہ 41 فیصد خواتین خون کی کمی اور 80.5 فیصد وٹامن ڈی کی کمی میں مبتلا ہیں مگر اس کے باوجودباقی تینوں صوبوں کے مقابلے میں پنجاب حکومت لازمی فوڈ فورٹیفیکیشن کے حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں کر سکی صوبے میں غذائی قلت کی شرح خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ صوبے میں 41 فیصد خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں۔ ماہرین صحت کے مطابق ’’چھپی ہوئی بھوک ‘‘ یا غذائی قلت سے نمٹنے کے لیے لازمی فوڈ فورٹیفیکیشن ہی واحد مؤثر اور پائیدار حل ہے، جو صحت مند اور مضبوط معاشرے کی تشکیل میں مدد دے سکتا ہے آئرن، فولک ایسڈ، وٹامن اے، وٹامن ڈی، زنک اور وٹامن بی 12 جسمانی نشوونما اور بیماریوں سے بچاؤ کے لیے نہایت ضروری ہیں، لیکن پاکستان میں عام استعمال ہونے والی غذائیں ان بنیادی غذائی اجزاء سے محروم ہیں۔عالمی بھوک انڈیکس میں پاکستان 121 ممالک میں سے 99ویں نمبر پر ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک کی ایک بڑی آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا پہلے ہی اس حوالے سے قوانین منظور کر چکے ہیں۔یہ صورت حال اس لیے بھی تشویشناک ہے کیونکہ پنجاب میں غذائی قلت کی شرح خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ صوبے میں 41 فیصد خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں، 25 فیصد میں وٹامن اے کی کمی ہے، جبکہ 80.5 فیصد خواتین میں وٹامن ڈی کی کمی پائی جاتی ہے۔نیوٹریشن انٹرنیشنل کے نیشنل پروگرام مینیجر برائے فوڈ فورٹیفیکیشن ضمیر حیدر کے مطابق خوراک میں وٹامنز اور معدنیات کی کمی کی متعدد وجوہات ہیں، جن میں غیر متوازن خوراک، صرف مخصوص غذاؤں پر انحصار، اور غربت شامل ہیں، جو کہ غذائیت سے بھرپور خوراک تک رسائی میں رکاوٹ بنتی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ان غذائی کمیوں کی وجہ سے بچوں کی ذہنی نشوونما متاثر ہورہی ہے، قوتِ مدافعت کمزور ہو جاتی ہے، دورانِ حمل پیچیدگیاں بڑھ جاتی ہیں اور بچوں کی اموات کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے۔ا یوٹریشن انٹرنیشنل کی کنٹری ڈائریکٹر، ڈاکٹر شبینہ رضا نے بھی خبردار کیا کہ غذائی قلت ملک کی معیشت پر بھی سنگین اثر ڈال رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ غذائی قلت پر قابو نہ پانے کے باعث پاکستان کو سالانہ 17 ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان ہوتا ہے ماہر غذائیت ڈاکٹر ارشاد دانش کے مطابق آئرن، فولک ایسڈ اور وٹامن اے کی کمی بچوں میں خون کی کمی، پیدائشی نقائص اور کمزور قوتِ مدافعت کا باعث بنتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ فوڈ فورٹیفیکیشن ایک سستا اور مؤثر طریقہ ہے جو طویل المدتی اقتصادی نقصانات کو روک سکتا ہے اور صحت کے نظام پر دباؤ کم کر سکتا ہے۔ماہرین کے مطابق آٹے میں آئرن شامل کرنے پر ہر ایک ڈالر کے بدلے 8 ڈالر کا فائدہ ہوتا ہے، فولک ایسڈ شامل کرنے سے پیدائشی نقائص اور زچگی کی پیچیدگیاں کم ہو سکتی ہیں، جس سے ہر ڈالر کے بدلے 46 ڈالر کا معاشی فائدہ ہوتا ہے، جبکہ آئیوڈین ملا نمک سے ہر ڈالر پر 30 ڈالر کا منافع ہوتا ہے۔ماہرین صحت اور پالیسی سازوں کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت کو فوری طور پر لازمی فوڈ فورٹیفیکیشن کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے، تاکہ اس پر سختی سے عمل درآمد ہو اور معیار کو یقینی بنایا جا سکے۔
لاہور سے مزید