• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ اوہ ۔۔اوہ ۔۔اب سمجھ میں آیا کہ وہ قتل کرنے کے بعد بھاگا کیوں نہیں ۔۔اسے وہ چیز نہیں ملی ہوگی جس کے لیے قتل کیا اور اس دوران کانسٹیبل آگیا ۔‘‘

’’ ہاں ۔۔‘‘ عمر نے اس کی تائید کی ۔’’ اور جب اسے کار میں بیٹھ کر مقتول کی تلاشی کے دوران وہ چیز مل گئی تو وہ میڈیکل اسٹور دیکھ کر بہانے سے ٹیکسی سے اترا اور فرار ہو گیا ۔‘‘

’’ شاباش ۔‘‘ احمد صدیقی نے خوش ہو کر کہا۔’’ اس کا مطلب ہے قتل کی ایک خاص وجہ تھی ۔‘‘

اسی وقت علاقے کا انسپکٹر قریب آگیا۔ اب بارش رک چکی تھی۔ وہ احمد صدیقی اور ان کے بچوں کو اچھی طرح جانتا تھا ۔

اس نے آتے ہی کہا۔’’ احمد صاحب،’’لیس کی کار روائی مکمل ہو گئی ہے۔۔تصویریں بنائی جا چکی ہیں۔‘‘

’’ فنگر پرنٹس ۔۔؟‘‘’’ لاش کے کپڑے پوری طرح بھیگے ہوئے تھے ۔اس پر سے تو کسی کے فنگر پرنٹس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، البتہ ٹیکسی کے پچھلے حصے سے کئی فنگر پرنٹس ملے ہیں جن کے اسنیپس لے لیے گئے ہیں۔‘‘

’’ اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔۔ٹیکسی میں بہت سارے لوگ بیٹھتے ہیں، جانے کس کس کے فنگر پرنٹس ہوں گے ۔‘‘

’’ جی سر ۔‘‘پھر وہ ایک لمحہ رک کر بولا ۔’’ لاش کو ہاسپٹل بھجوادیں ۔؟‘‘

’’ ہاں بھجوادو، اس کی جیبوں کی تلاشی سے کچھ ملا، کوئی پرس وغیرہ، ویسے امید تو نہیں ہے جواس کے ساتھ تھا وہ پہلے ہی تلاشی لے چکا تھا۔ یقینا اس نے سب کچھ نکال لیا ہوگا ۔‘‘

’’جی سر، کچھ نہیں ملا ۔۔لیکن مقتول کا شناختی کارڈ ملا ہے ۔‘‘

وہ چونک گئے ۔’’شناختی کارڈ ؟‘‘

’’ جی سر، مگر وہ اس کی جیبوں میں سے نہیں ملا بلکہ ٹیکسی کے اندر سے ملا ہے شاید وہ وہاں گر گیا ہوگا ۔جب قاتل اس کے کپڑوں کی تلاشی لے کر چیزیں نکال رہا تھا ۔‘‘

’’ ویری گڈ، اس کا مطلب ہے مقتول کی شناخت کا مسئلہ حل ہوگیا ۔‘‘

’’ جی جناب، ا س کانام جاوید باقری تھا ۔‘‘

انسپکٹر نے کارڈ ان کی طرف بڑھا دیا۔ احمد صدیقی نے کارڈ دیکھا، اس پر مقتول کی تفصیل کے ساتھ ساتھ اس کے گھر کا ایڈریس بھی لکھا تھا ۔’’ مکان نمبر سولہ ۔۔بی ۔۔ناظم کالونی ۔۔گلی نمبر ۳‘‘

سب چونک گئے ۔’’ ناظم کالونی تو زیادہ دور نہیں ہے یہاں سے کوئی پانچ کلو میٹرکے فاصلے پر ہے ۔‘‘

ہاں ۔۔چلو ۔۔وہاں چلتے ہیں۔‘‘انسپکٹر نے چونک کر ان کی طرف دیکھا۔

’’ میرے لیے کیا حکم ہے سر ؟‘‘

احمد صدیقی نے اس کی طرف دیکھا۔ ’’ تم ضابطے کی کارروائی کرو۔‘‘

’’ میرا مطلب تھا سرکہ آپ اس کیس پر کام کر رہے یا ۔۔‘‘

احمد صدیقی نے بات کاٹ دی ۔’’ تمہیں معلوم ہے میں پولیس میں نہیں ہوں ۔۔تم پولیس انسپکٹر کے طور پر اپنا کام کرو ۔۔لاش کو سرد خانے میں پہنچا کر ایک کانسٹیبل تعینات کرو اور اس کانسٹیبل کو تلاش کروجس نے ان کو ٹیکسی میں سوار کرایا تھا ۔‘‘

’’ ٹھیک ہے سر ۔۔‘‘ انسپکٹر نے مسکرا کر کہا۔

’’پھر وہ ٹیکسی ڈرائیور کی طرف مڑا ۔’’ چلو بھئی ٹیکسی لے کر ہمارے پیچھے تھانے چلو تمہارا بیان ہونا ہے ابھی ۔‘‘

ٹیکسی ڈرائیور کی آنکھوں میں خوف پھیل گیا۔ ’’ مجھ پر رحم کرو میرا کیا قصور ہے صاحب ۔۔‘‘

’’ تمہاری گاڑی میں لاش تھی اور تم پوچھتے ہو تمہارا قصور کیا ہے ۔۔‘‘ انسپکٹر ایک دم روایتی پولیس والا بن گیا۔

احمد صدیقی نے اسے مخاطب کیا۔’’ بات سنو ۔‘‘

’’ جی سر ؟‘‘ انسپکٹر ایک دم مودب ہوگیا۔

’’ ٹیکسی ڈرائیور غریب آدمی ہے ،اس کا بیان لے کر اور ایڈریس معلوم کرکے اسے جانے دینا، اسے پریشان مت کرنا۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ اس واردات میں ملوث ہو سکتا ہے۔

’’ سمجھ گیا سر ،‘‘ انسپکٹر نے دھیرے سے کہا۔

احمد صدیقی، عمر اور علی نے میڈیکل اسٹور والے کا شکریہ ادا کیا اور انسپکٹر سے کہا کہ وہ کسی کانسٹیبل کے ذریعے عمر اور علی کی بائیک میں صحیح کر واکر ان کے گھر پہنچوادے۔

’’ ٹھیک ہے سر، اس وقت تو مکینک کہیں نہیں ملے گا ۔۔ہم موبائل میں ڈال کر بائیک پولیس اسٹیشن لے جاتے ہیں۔ صبح اسے ٹھیک کرواکے کانسٹیبل کے ہاتھ گھر پہنچوادوں گا۔‘‘

وہ وہاں سے مقتول کے گھر روانہ ہوئے۔ عمر نے شناختی کارڈ کی تصویر اپنے سیل فون سے بنالی تھی۔

کچھ ہی دیر میں وہ ناظم کالونی پہنچ گئے۔ یہ ایک مڈل کلاس آبادی تھی۔بارش ب تھم چکی تھی، گلیوں میں پانی موجود تھا۔

گلی نمبر تین میں پہنچ کر مکان نمبر سولہ بی تلاش کرنے میں انہیں کسی دقت کا سامان نہیں کرنا پڑا ۔انہوں نے گاڑی مکان کے سامنے کھڑی کی اور باہر آگئے۔’’ مکان کی حالت سے تو پتا چل رہا ہے کہ مقتول لوئر مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتا ہے ۔‘‘احمد صدیقی نے باہر سے گھر کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ۔’’ چلو بیل بجاؤ۔ آج کی رات اس گھر کے مکینوں پر بہت بھاری گزرنے والی ہے ۔‘‘

دروازہ ایک بوڑھی عورت نے کھولا ۔۔اس کے چہرے پر جھریاں پڑی ہوئی تھیں۔ ’’جی ۔۔فرمائیے ؟‘‘ اس نے الجھی الجھی نظروں دیکھ کر پوچھا۔

احمد صدیقی آگے بڑھے ۔’’ اماں جی، ہم سرکاری لوگ ہیں ،کیا ہم اندر آسکتے ہیں۔ آپ سے کچھ بات کرنی ہے ۔۔‘‘

عورت نے ایک لمحہ سوچا پھر بولی ۔’’ میرا بیٹا ابھی گھر میں نہیں اور میں اکیلی ہوں، کیا بات کرنی ہے ۔‘‘

احمد صدیقی نے ایک لمحہ سوچا پھر کہا ۔’’ ہمیں گھر میں چل کر بات کرنی ہوگی۔ آپ پڑوس سے کچھ لوگوں کو بلالیں، تاکہ ہم سکون سے بات کرسکیں۔‘‘

عورت پریشان ہوگئی ۔’’ بات کیا ہے‘‘۔

’’ وہ ہم دروازے پر نہیں بتا سکتے۔‘‘

’’اچھا ۔۔میں بلاتی ہوں ۔‘‘کچھ ہی دیر میں وہ بوڑھی عورت دو چار پڑوسیوں کو بلا کر لے آئی ۔

وہ پڑوسیوں کے ساتھ اندر آگئے۔ سادہ سا گھر تھا۔ گھر کا سامان بھی پرانا تھا لیکن کچھ سامان بالکل نیا تھا، فریج اور دیگر چیزیں بھی تھیں جن کو دیکھ کر لگتا تھا کہ یہ حال ہی میں یا کچھ عرصہ قبل خریدی گئی ہیں۔

عورت پریشان ہو رہی تھی ۔’’ بات کیا ہے۔ آپ لوگ بتاتے کیوں نہیں ؟‘‘

احمد صدیقی نے کچھ سوچا ،پھر کہا ،’’ اماں جی بات یہ کہ ہمیں یہاں سے کچھ فاصلے پر ایک نوجوان کی لاش ملی ہےاور ۔۔‘‘

’’لل۔۔لاش ۔۔‘‘ عورت کو چکر آگیا ۔’’ کس کی ۔۔کس کی لاش ۔۔؟‘‘

’’یہ تو ہمیں ابھی نہیں معلوم ،مگرجس ٹیکسی میں لاش ملی ہےاوریک شناختی کارڈ ملا ہے ۔۔ جو جاوید باقری نام کے کسی نوجوان کا ہے ۔۔اور اس پر۔۔‘‘

عورت کو اتنا سنتے ہی غش آگیا۔

’’میرا بیٹا ۔۔ہائے میرا جاوید ۔۔‘‘ عورت نے ایک چیخ ماری اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

پڑوس سے آئی ہوئی ایک دو عورتیں بھی رونے لگیں، ان کے ساتھ موجوجود مرد بھی ایک دم افسردہ ہوگئے۔

’’دیکھیے ۔۔رونے سے کچھ نہیں ہوگا، ابھی ہم تصدیق نہیں کرسکتے کہ وہ نوجوان آپ کا بیٹا ہی ہے۔ آپ خود کوسنبھالیں ۔۔‘‘

بوڑھی کو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا۔ عورتیں اسے سنبھالے ہوئے تھیں۔

اس کی حالت ذرا سنبھلی تو احمد صدیقی نے کہا۔

’’میں معذرت چاہتا ہوں کہ آپ کو یہ ناخوش گوار اطلاع دی لیکن آپ کو یہ تکلیف دہ کام کرنا ہوگا ۔‘‘

’’کون سا تکلیف دہ کام ۔؟‘

’’کون سا تکلیف دہ کام ؟‘‘ عورت نے روتے ہوئے پوچھا۔

’’آپ کو سرد خانے جا کر لاش کی شناخت کرنی ہوگی ممکن ہے وہ آپ کا بیٹا جاوید نہ ہو کوئی اور ہو ۔‘‘

’’چلو بیٹا، میں چلتی ہوں ۔‘‘ عورت مسلسل روئے جا رہی تھی۔

’’میں خاتون پولیس اہل کار بلواتا ہوں وہ آپ کو سرد خانے لے جائیں گی لیکن جب تک آپ خود کو سنبھالیں۔ ‘‘

احمد صدیقی نے انسپکٹر کو فون کرکے خواتین اہل کار کو طلب کیا اور اس بوڑھی خاتون کے ساتھ روانہ کردیا۔

باہر ایک بار پھر بارش شروع ہو گئی تھی ۔ بوڑھی عورت کی آنکھیں بھی مسلسل برس رہی تھیں۔

ایک عورت جو اسی خاتون کی عمر کی تھی وہیں سوگوار کھڑی تھی ۔وہ باہر جانے لگی تو احمد صدیقی نے عمر سے کہا۔

’’اس خاتون کو بلاؤ ذرا ۔۔‘‘ (جاری ہے)