• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مصطفیٰ عامر قتل کیس: ملزم ارمغان کے ریمانڈ کی چاروں درخواستیں منظور


سندھ ہائی کورٹ نے نوجوان مصطفیٰ عامر کے اغواء اور قتل کے کیس میں ملزم ارمغان کے ریمانڈ کی چاروں درخواستیں منظور کر لیں۔

عدالت نے محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے ملزم کو اے ٹی سی ٹو کے جج کے سامنے پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ ملزم کو جسمانی ریمانڈ کے لیے اے ٹی سی ٹو میں پیش کیا جائے، ملزم کو آج ہی اے ٹی سی کورٹ ٹو میں پیش کیا جائے۔

پولیس ملزم ارمغان کو سندھ ہائی کورٹ سے لے کر اے ٹی سی روانہ ہو گئی۔

دورانِ سماعت عدالت نے سوال کیا کہ کسٹڈی کہاں ہے؟

ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے مصطفیٰ عامر کے اغواء کی ایف آئی آر پڑھ کر سنائی اور کہا کہ 6 جنوری کو مصطفیٰ عامر کو اغواء کیا گیا۔

سماعت کے دوران سرکاری وکیل نے کہا کہ تحقیقات کے دوران مغوی کی والدہ کا بیان ریکارڈ کیا گیا، مغوی کی والدہ نے بتایا کہ انہیں 2 کروڑ روپے کے تاوان کی کال موصول ہوئی ہے، تاوان کی کال کے بعد کیس کی انویسٹی گیشن اے وی سی سی پولیس کو منتقل ہو گئی، 8 فروری کو ڈیفنس کے ایک بنگلے میں ملزم کی موجودگی کی اطلاع پر چھاپہ مارا گیا۔

سندھ ہائی کورٹ نے سرکاری وکیل سے سوال کیا کہ سی آئی اے کی جانب سے کون تفتیش کر رہا تھا؟

سرکاری وکیل نے بتایا کہ انسپکٹر امیر سی آئی اے کے تفتیشی افسر تھے، 4 بج کر 40 منٹ پر کارروائی کی گئی جو 9 بجے تک جاری رہی، ملزم نے پولیس پارٹی پر فائرنگ کی۔

عدالت نے سوال کیا کہ ملزم کے گھر سے کونسا اسلحہ برآمد ہوا ہے؟

سرکاری وکیل نے بتایا کہ اسلحہ برآمدگی سے متعلق الگ ایف آئی آر درج کی گئی ہے، ملزم ارمغان کو 10 فروری کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں 3 مقدمات میں جسمانی ریمانڈ کے لیے پیش کیا گیا تھا۔

عدالت کو بتایا گیا کہ ملزم کی فائرنگ سے پولیس افسر اور اہلکار زخمی ہوئے، ملزم کا ایک ماہ کا جسمانی ریمانڈ مانگا تھا جو نہیں ملا۔

سرکاری وکیل نے کہا کہ ملزم کے قبضے سے مغوی کا ایک موبائل فون ملا تھا، ریکارڈ کے مطابق ملزم کے خلاف پہلے بھی 5 مقدمات ہیں، ملزم پہلے بھی بوٹ بیسن کے ایک کیس میں مفرور تھا، ملزم ارمغان پر بھتے کا مقدمہ تھا جس میں مفرور تھا۔

سندھ ہائی کورٹ نے سوال کیا کہ ٹرائل کورٹ نے کس وجہ سے جسمانی ریمانڈ سے انکار کیا ہے؟

سرکاری وکیل نے بتایا کہ جسمانی ریمانڈ سے انکار کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ مار پیٹ کی وجہ سے جسمانی ریمانڈ نہیں ملا، بتائیں کیا تشدد ہوا ہے؟

ملزم ارمغان نے عدالت میں بتایا کہ انہوں نے مجھ پر تشدد کیا ہے۔

سندھ ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ دیکھیں ان کے جسم پر تشدد کا کوئی نشان ہے؟

ملزم کی شرٹ اوپر کر کے دکھایا گیا کوئی نشان نہیں ملا۔

ملزم ارمغان نے کہا کہ نچلے حصے پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

عدالت نے ملزم سے سوال کیا کہ کیا آپ نے جیل حکام سے تشدد کی شکایت کی تھی؟

ملزم ارمغان نے عدالت کو بتایا کہ میں صدمے میں تھا۔

سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ پورا آرڈر ٹائپ تھا، وائٹو لگا کر جیل کسٹڈی کیا گیا۔

جسٹس ظفر احمد راجپوت نے کہا کہ ہاتھ سے وائٹو لگا کر جیل کسٹڈی کیا گیا، پولیس ابھی تک لکھا ہوا ہے۔

پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ ملزم کا باپ جج صاحب کے کمرے میں موجود تھا میں حلف اٹھا کر کہتا ہوں۔

سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ وہ بات نہ کریں جو آپ نے درخواست میں نہیں لکھی۔

قومی خبریں سے مزید