• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمر اس عورت کو بلا کر لے آیا۔

احمد صدیقی نے سرسری انداز میں پوچھا ۔ ’’ آپ قریب میں ہی رہتی ہیں ۔؟‘‘

’’ جی، برابر والے گھر میں رہتی ہوں ۔‘‘

’’ کیا میں آپ سے پوچھ سکتا ہوں، کہ اس گھر میں اور کون کون رہتا ہے۔جاوید اور اس کی ماں کے علاوہ ۔؟‘‘

’’ جاوید بھائی اور ان کی امی اکیلے رہتے ہیں۔ ان کا کوئی اور نہیں ہے اس دنیا میں۔‘‘

’’ مطلب، ان کے بیٹے کی شادی نہیں ہوئی ۔؟‘‘

عورت نے انکار میں سرہلایا۔ ’’ نہیں، ابھی تو نہیں ہوئی۔ رضیہ خالہ تو بہت اصرار کرتی ہیں، مگر جاوید بھائی کہتے ہیں کہ ابھی بہت کام کرنے ہیں پہلے ان سے نمٹ جاؤں، پھر شادی کا سوچوں گا ۔‘‘

احمد صدیقی نے ایک طویل سانس لیا ۔’’ اچھا، کیا آپ بتا سکتی ہیں، کہ ان کا بیٹاکام کیا کرتا ہے۔‘‘

عورت نے اقرا ر میں سرہلاتے ہوئے کہا ۔’’ ان کی فوٹو اسٹوڈیو شاپ ہے صدر بازار میں۔ جاوید باقری اسٹوڈیو کے نام سے۔ فوٹو گرافر ہیں جاوید بھائی ۔‘‘

’’ اچھا ۔‘‘ احمد صدیقی نے ایک دو سوال اور کیے، مگر کوئی خاص بات معلوم نہیں ہوئی۔

گھر میں کہرام مچ گیا۔ عورتیں رضیہ خالہ کو سنبھال رہی تھیں، مگر ان پر غشی کے دورے پڑ رہے تھے۔ انہیں سب معلوم ہو گیا تھا کہ ان کے جوان بیٹے کو کسی نے بے دردی سے خنجر کے وار سے ہلاک کر دیا۔ رضیہ خالہ کی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ کسی بات کا جواب دے سکتیں۔

احمد صدیقی نے عمر اور علی کو نکلنے کا اشارہ کیا۔ اور وہ اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔ ایک ماں کو تڑپتے دیکھ کروہ بہت دل گرفتہ ہو گئے تھے۔

۔۔۔۔۔۔

عمر اور علی اسکول سے فارغ ہوئے تو ان کے ابو جی کا فون آیا۔

’’ کہاں ہو ۔۔؟‘‘

’’ گھر پر ہیں ابو جی، ابھی پہنچے ہیں ۔۔‘‘ عمر نے جواب دیا ۔

’’ ٹھیک ہے ۔۔ تم دونوں کھانا کھا کر صدر بازار پہنچو ۔۔جاوید باقری کی دکان وہیں ہے ۔‘‘

’’ جی ابو جی، ہمیں اس کا پتا یاد ہے ۔۔‘‘

’’شاباش۔۔ دکان تو ظاہر ہے بند ہوگی، ارد گرد کے دکان داروں سے معلومات حاصل کرو ۔‘‘

’’ ٹھیک ہے ابو جی ۔‘‘

’’ کیا کہہ رہے تھے ابو جی ۔‘‘ عمر نے پوچھا۔

’’ ہمیں صدر بازار جانا ہے ۔ابھی ۔۔‘‘

’’ سمجھ گیا ۔۔جاوید کی دکان ہے وہاں۔‘‘

انہوں نے کپڑے تبدیل کیے۔ دوپہر کا کھانا کھایا اور امی جی کو بتا کر گھر سے نکل گئے۔

کچھ ہی دیر میں وہ ٹیکسی کے ذریعے صدر بازار پہنچ گئے۔ ان کی بائیک ابھی تک گھر واپس نہیں پہنچائی گئی تھی۔ اس لیے انہوں نے ٹیکسی سے جانے کا فیصلہ کیا۔

جاوید باقری کا فوٹو اسٹوڈیو تلا ش کرنے میں انہیں کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ایڈریس ان کے پاس پہلے ہی سے تھا۔

وہ جوں ہی اسٹوڈیو کے سامنے پہنچے چونک گئے۔ اسٹوڈیو کھلا ہوا تھا۔

’’ ارے ۔۔یہ تو کھلا ہوا ہے ۔۔‘‘

’’ حیرت ہے ۔۔‘‘ عمر نے کہا اور ٹیکسی سے اتر کر وہ اندر داخل ہوگئے۔

اسٹوڈیو کے کاؤنٹر پر ایک دبلا پتلا نوجوان کھڑا تھا اور کام میں مصروف تھا ۔اس کے سامنے کچھ تصویریں رکھی تھیں جن کے وہ کنارے کاٹ کاٹ کر ایک لفافے میں ڈال رہا تھا ۔ ’’السلام و علیکم ۔۔‘‘ دونوں نے نے ایک ساتھ کہا۔

اس نے چونک کر نظریں اٹھائیں ،اور چہرے پر سیلز مین والی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔

’’ جی فرمائیے ۔۔‘‘

’’ آپ نے سلام کا جواب نہیں دیا۔۔‘‘

’’ اوہ ۔۔وعلیکم السلام ۔۔‘‘ اس نے جلدی سے کہا ۔’’ جی اب فرمائیے۔‘‘

’’ آپ کا نام ۔‘‘

اس نے چونک کر ان کی طرف دیکھا ۔’’ خیریت میرا نام جان کر آپ کیا کریں گے۔؟‘‘

علی نے مسکرا کر کہا ۔’’جو آپ کا نام جان جاتا ہے، اسے کچھ کرنا پڑتا ہے کیا۔؟‘‘

وہ عجیب سا ہو گیا ۔’’ میں سمجھا نہیں۔‘‘

’’ آپ کا نام پوچھا ہےاور آپ کہہ رہے ہیں سمجھا نہیں۔‘‘

’’ وہ میں نے دوسری بات کے جواب میں کہا تھا۔ کوئی کام ہے مجھ سے ؟‘‘

’’ آپ کس کام آتے ہیں ؟‘‘ علی موڈ میں آگیا تھا۔

’’ کیوں وقت ضایع کر رہے ہیں۔ کوئی کام ہے تو بتائیں ۔۔ورنہ اپنا راستا ناپیں۔‘‘

اس کے لہجے میں اچانک بے زاری آگئی تھی۔

عمر نے ایک طویل سانس لی اور کہا ۔’’ ہم ایک کیس کی تفتیش کر رہے ہیں، اسی سلسلے میں آپ سے بات کرنے آئے ہیں ۔‘‘

اب اس نے چونک کر دیکھا اور حیرت سے کہا ۔’’ کیس کی تفتیش ۔۔اور بچے۔۔؟‘‘

’’ ہاں ۔۔ ہم زرا اور طرح کے بچے ہیں ہمارا تعلق ایک خفیہ ایجنسی سے ہے ۔‘‘

’’ خفیہ ایجنسی ۔۔‘‘ وہ ہنس پڑا ۔انداز مذاق اڑانے والا ہی تھا۔

’’ اب خفیہ ایجنسیوں نے بچے بھی ملازم رکھنا شروع کر دیئے ۔‘‘

عمر اس کی حرکات وسکنا ت اور باڈی لینگویج کا مشاہدہ کر رہا تھا ۔وہ باتیں کرتے ہوئے بھی اپناکام کیے جا رہا تھا۔

’’ جی ہاں ۔۔کچھ بچے ایجنسیوں کے لیے اہم ہوتے ہیں۔ ہمارے ابو جی ملک کے ایک اہم عہدے پر فائز ہیں۔ وہ ایک بڑے جاسوس ہیں اور ہم ان کے بچے ہیں ،ان کے ساتھ کام کرتے ہیں۔‘‘

وہ ہنس پڑا ،’’ جاسوس کے بچے ۔۔بہت خوب ۔۔‘‘

عمر نے ایک طویل سانس لی اور کہا ۔’’ آپ نام نہیں بتا رہے ۔۔کوئی بات نہیں، یہ تو بتا دیں کہ جاوید باقری کہاں ہیں ۔۔؟‘‘

اب وہ چونکا، ہاتھ روک کر ان کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔

’’ کمال ہے ۔۔ آپ جاوید بھائی کے جاننے والے ہیں تو پہلے بتانا تھا نا، خوامخواہ الجھ رہے تھے مجھ سے۔‘‘

’’ نہیں ہم ان کے جاننے والے نہیں ہیں، ان کے بارے میں کچھ جاننے کے لیے آئے ہیں ۔‘‘

’’وہ پانچ بجے تک آتے ہیں ۔‘‘

’’ آج نہیں آئیں گے ۔۔‘‘عمر نے سرسری انداز میں کہا۔

’’ کیوں ۔۔؟ اور آپ کو کیسے معلوم ۔؟‘‘

’’ کیوں کہ ان کا مرڈر ہو گیا ہے ۔۔‘‘

ایسا لگا جیسے اسے بجلی کا جھٹکا لگا ہو۔ اس کا ہاتھ رک گیا ۔’’ کیا بکواس کر رہے ہیں ۔۔؟‘‘

’’ ہم سچ کہہ رہے ہیں ۔آپ ان کے گھر فون کر کے معلوم کر سکتے ہیں ۔‘‘

’’ان کے گھر میں فون نہیں ہے۔ میں جاوید بھائی کو فون کرتا ہوں ۔۔یہ کیا بات ہوئی ۔۔‘‘

اس نے جلدی سے دراز میں سے ایک سستا سا سیل فون نکالا اور فون کرنے لگا۔پھر حیرت سے کہا۔

’’ تعجب ہے۔۔ ان کا فون تو کبھی بند نہیں ہوتا آج کیسے بند ہے ۔‘‘

عمر اور علی غور سے اس کی حرکات وسکنات کا جائزہ لے رہے تھے۔ وہ ایک دم پریشان ہوگیا تھا۔

عمر نے اپنا سیل فون آگے کیا اور گیلری میں جاکر جاوید باقری کی تصویروں کا فولڈر کھول دیا۔ اس فولڈر میں وہ تصویریں تھیں جولاش کو سرد خانے منتقل کرنے سے پہلے پولیس کے عملے نے بنائی تھیں، انسپکٹر نے وہ تصویریں سیل فون پر احمد صدیقی کو بھیجی تھیں اور احمد صدیقی نے انہیں فارورڈ کر دی تھیں۔ اس نوجوان نے تصویریں دیکھیں اور جیسے سکتے میں آگیا۔

’’ یہ ۔۔یہ کیسے ہو گیا ۔۔اف اللہ ۔۔اب ماں جی کا کیا ہو گا ۔۔‘‘

عمر اور علی نے اسے ساری تفصیل سنائی اور وہ منہ پھاڑے سنتا رہا، اس دوران اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور پھر وہ ہچکیوں سے رونے لگا۔

عمر اور علی اس کے چپ ہونے کا انتظار کرتے رہے۔ جب اس کی ہچکیوں میں وقفہ آیا تو عمر نے پوچھا ۔

’’ اب بات کریں ۔۔؟ کچھ سوال جواب کرلیں ۔؟‘‘

’’ ہاں ۔۔پوچھو کیا پوچھنا ہے ۔‘‘

’’ یہ اسٹوڈیو توجاوید باقری کا ہے ۔۔آپ کون ہیں ؟‘‘

’’ میں یہاں کام کرتا ہوں ۔۔میرا نام ندیم ارشادی ہے۔ ‘‘

عمر اور علی نے ایک طویل سانس لی۔ ندیم ارشادی کی ہچکیاں تھم گئی تھیں، مگر وہ بہت دکھی محسوس ہورہا تھا۔ جواب دیتے ہوئے بھی رو رہا تھا۔ ’’ اب یہ اسٹوڈیو کون چلائے گا ۔۔؟

’’ معلوم نہیں ۔۔بڑی بری خبر سنائی آپ نے ۔۔اب ہمارا کیا ہوگا ۔‘‘

’’ تمہیں معلوم نہیں تھا جاوید باقری کے مرڈر کا ۔؟‘‘

ندیم ارشادی نے انکار میں سر ہلایا۔

’’ نہیں ۔۔گھر میں ماں جی کو پتا چل گیا ۔۔؟

’’ ہاں ۔۔‘‘ عمر نے دھیرے سے کہا۔

’’ یا اللہ رحم ۔۔‘‘اس کے منھ سے نکلا اور وہ اپنے آنسو صاف کرنے لگا۔

’’ تم کب سے کام کر رہے ہو ان کے ساتھ ۔۔؟‘‘علی نے پوچھا۔

’’ چار سال سے ۔۔جب سے یہ اسٹوڈیو بنا ہے ۔۔ہماری تو بہت اچھی دوستی تھی آپس میں ۔‘‘

عمر نے ایک طویل سانس لے کر پوچھا۔

’’ ان کی کسی سے دشمنی تھی ۔؟ (جاری ہے)