اسلام آباد (فخر درانی) پلوامہ حملے کے بعد بھارت کی جانب سے پاکستان کے علاقے بالاکوٹ میں بھارت کے فضائی حملے کے بعد فروری 2019ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اس قدر بڑھ گئی کہ حالات جنگ کے قریب پہنچ چکے تھے۔ اس کے جواب میں پاکستان نے آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ شروع کیا جس میں ایک بھارتی مگ 21 طیارہ مار گرایا گیا اور اس کے پائلٹ ابھینندن ورتمان کو گرفتار کر لیا گیا۔ جس وقت دونوں ممالک ایک دوسرے پر ممکنہ میزائل حملوں کیلئے تیار تھے اس وقت فوری طور پر کی جانے والی سفارتی کوششوں نے بحران کم کرنے میں مدد دی۔ اس صورتحال سے آگاہ ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے اسٹریٹجک سطح پر تحمل کا مظاہرہ کرنے، دانشمندانہ ہینڈلنگ اور ابھینندن کی رہائی نے بالآخر دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کو روکنے میں مدد دی۔ پس منظر کی بریفنگ، انٹرویوز اور عوامی ریکارڈز سے پلوامہ حملے کے بعد حیرت انگیز واقعات سامنے آتے ہیں۔ تفصیلی بات چیت سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی تھی اور اس دوران بھارت کے حملے، پاکستان کے جوابی حملے اور اس کے بعد بھارتی پائلٹ کی گرفتاری کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان میزائلوں کی جنگ جیسے خطرات شامل تھے۔ ذیل میں ان اہم واقعات کی ٹائم لائن پیش کی جا رہی ہے۔ دسمبر 2018 میں، پاکستان کو انٹیلی جنس رپورٹ موصول ہوئی کہ وزیر اعظم مودی انتخابات سے پہلے فالس فلیگ آپریشن کر سکتے ہیں۔ 14 فروری 2019 کو پلوامہ حملے کے بعد، عسکری قیادت نے 15 فروری کو وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی، جس میں صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ فوجی قیادت نے واضح کیا کہ حملے میں پاکستان کا کردار نہیں اور اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اگر کوئی پاکستانی شہری ملوث پایا گیا تو سخت کارروائی کی جائے گی۔ ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ امریکا کو بھی علم تھا کہ پاکستان اس حملے میں ملوث نہیں۔ 19 فروری کو وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں کہا کہ ثبوت فراہم کیے گئے تو پاکستان کارروائی کرے گا اور مشترکہ تحقیقات میں تعاون کیلئے تیار ہیں۔ تاہم اگر بھارت نے یکطرفہ کارروائی کی تو ہم ایک منٹ بھی نہیں ہچکچائیں گے اور فیصلہ کن جواب دیں گے۔ بیان میں یقین دہانی کرائی گئی کہ پاکستان اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے سخت اقدامات کرے گا۔ اس پیشرفت سے باخبر ایک اور ذریعے نے بتایا کہ پلوامہ واقعے پر وزیر اعظم کے واضح موقف کے دو دن بعد امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے آرمی چیف جنرل باجوہ کو فون کیا اور کہا کہ بھارت اس حملے کا الزام جیش محمد پر عائد کر رہا ہے۔ آرمی چیف نے یہ دعویٰ مسترد کرتے ہوئے وزیراعظم کے اس بیان کو دہرایا کہ ثبوت فراہم کیے گئے تو مبینہ مجرموں کیخلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق یہ بیان سرحد پار دہشت گردی کے ساتھ کسی بھی تعلق کو مسترد کرنے کیلئے پاکستان کے غیر متزلزل عزم کی نشاندہی تھا۔ 2دن بعد 25فروری کی رات کو بھارتی طیارے پاکستانی حدود میں داخل ہوئے اور پاکستانی سرزمین کے اندر میزائل فائر کئے ۔ ایک ذریعے نے بتایا کہ جی ایچ کیو میں اعلیٰ قیادت کی میٹنگ کے بعد وزیراعظم آفس میں نیشنل سیکورٹی کونسل (این ایس سی) کا اعلیٰ سطح اجلاس منعقد ہوا جس میں متعدد آپشنز پر غور کے بعد آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ کی منظوری دی گئی ۔ باخبر ذریعے نے مزید بتایا کہ جنرل باجوہ نے احتیاطً فاٹا میں موجود فوج کو 6گھنٹے کے نوٹس پر رہنے کی ہدایت دیں تاکہ کسی بھی مضبوط فوری جواب دیا جاسکے۔ ذریعے نے مزید کہا کہ ’اعلیٰ سطح اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ پاکستانی فضائیہ 5مقامات کی نشاندہی کرے گی ، ان کی تصاویر لے گی اور 500گز کے فاصلے پر میزائل گرا کر بھارت کو یہ پیغام دیا جائے گا کہ اگر پاکستان چاہتا تو اسے تباہ کیا جاسکتا تھا۔ مزید برآں کہ وہ دن کے وقت جواب دے گا۔ 27فروری کے آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ میں پاکستان نے اس حملے کیلئے جے ایف 17تھنڈر اور میراج طیارے استعمال کیے۔ دریں اثنا، بھارتی پائلٹ ابھینندن مبینہ طور پر میس میں کافی پی رہے تھے جب الرٹ بجا تو بھارتی طیاروں کو فوراً اڑان بھرنا پڑی۔ آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ کیلئے دو ٹیمیں بھیجی گئیں۔ پہلی اسٹرائیک ٹیم تھی جبکہ دوسری کمبیٹ ایئر پیٹرول ٹیم تھی۔ اسٹرائیک ٹیم نے اپنا ہدف پورا کیا اور میزائل فائر کیے اور پیچھے ہٹ گئے، دوسری ٹیم سے بے خبر بھارتی طیاروں نے پاکستانی اسٹرائیک ٹیم کا پیچھا کیا۔ جیسے ہی ڈاگ فائٹ کا انکشاف ہوا، بھارتی ایئر ڈیفنس کنٹرولر نے ابھینندن کو واپس لوٹنے کی ہدایت کی کیونکہ بھارتی ٹیم نے پاکستان کی دوسری ٹیم کو دیکھ لیا تھا جس کے پاس 80 کلومیٹر رینج کے میزائل تھے، جبکہ بھارتی طیاروں کے پاس 30؍ کلومیٹر رینج کے آرچر میزائل تھے۔ ذرائع کے مطابق 27فروری کو دو بھارتی لڑاکا طیارے اور ایک ہیلی کاپٹر گر گیا تھا۔ ہیلی کاپٹر کو بھارتی زمینی افواج نے خود گرایا، جبکہ دو لڑاکا طیاروں کو پاک فضائیہ نے گرایا۔ ابھینندن مگ 21 اڑا رہا تھا، اور ایک اور بھارتی طیارہ سخوئی 30 آپریشن کے دوران موجود تھا۔ دونوں طیاروں کو مار گرایا گیا۔ ایک طیارہ پٹھان کوٹ بیس پر گر کر تباہ ہوا۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ بھارتی سخوئی کے ملبے کی سیٹلائٹ تصاویر پاکستان ایئر فورس کے پاس موجود ہیں۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ تین اور بھارتی جیٹ طیارے پاکستان کی دوسری ٹیم کی حدود میں تھے تاہم ائیر چیف مارشل نے صورتحال کو مزید خراب ہونے سے بچانے کیلئے کوئی کارروائی نہ کرنے کی ہدایت دی۔ بھارتی پائلٹ ابھینندن کی گرفتاری کے کچھ ہی دیر بعد بھارت میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ اس دوران امریکی سینٹ کام کے کمانڈر جنرل جوزف نے پاکستانی آرمی چیف جنرل باجوہ کو فون کرکے صورتحال کے بارے میں دریافت کیا۔ ذرائع کے مطابق جنرل باجوہ نے جواب دیا کہ ان کے پاس قابل اعتماد انٹیلی جنس ہے کہ بھارت براہموس میزائل سے پاکستانی فضائی اڈوں کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر بھارت نے براہموس فائر کیا تو پاکستان ہر ایک میزائل کے بدلے دو میزائل فائر کرے گا۔ پاکستان کے پاس اطلاع تھی کہ بھارت رات 9 بجے حملہ کر سکتا ہے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بھارت کو پیغام ملا اور وہ پیچھے ہٹ گیا۔ سینٹ کام کمانڈر سے بات کے بعد جنرل باجوہ نے پارلیمنٹ کی سیکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی جہاں انہوں نے وزیراعظم عمران خان کے علاوہ نون لیگ کے صدر شہباز شریف، پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور دیگر رہنمائوں سمیت اہم سیاسی شخصیات سے ملاقات کی۔ ایک ذریعے کے مطابق، وزیراعظم عمران خان نے اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا تھا کیونکہ وہ شریف اور زرداری جیسے اپوزیشن لیڈروں کے ساتھ بیٹھنا نہیں چاہتے تھے۔ ذرائع کے مطابق، اس صورتحال پر جب قوم جنگ کے دہانے پر تھی، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنمائوں کو شدید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ وزیراعظم کی غیر موجودگی نے سنگین خدشات کو جنم دیا۔ گرفتار بھارتی پائلٹ ابھینندن ورتمان کی رہائی کے حوالے سے ایک ذریعے نے بتایا کہ اگلی صبح آرمی چیف جنرل باجوہ کو دوست ممالک کی جانب سے دو کالز موصول ہوئیں۔ ایک شمال سے دوست ملک سے اور دوسرا ایک اہم مسلم ملک سے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ اگرچہ پاکستان نے سمجھداری سے کام کیا لیکن مزید کشیدگی سے گریز کیا جائے کیونکہ دونوں ممالک جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے بھارت کی مٹی پلید کر دی ہے اور اب آپ کو کشیدگی کم کرنے کیلئے اقدامات کرنا چاہئیں۔ ذرائع نے بتایا کہ اس اہم سفارتی مشورے نے ابھینندن کی رہائی میں مدد دی۔ ان کالز کے بعد اس وقت کے آرمی چیف نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی اور انہیں بریفنگ دی۔ عمران خان نے پوچھا کہ آگے کیا کرنا چاہئے جس پر جنرل باجوہ نے ابھینندن کو رہا کرنے کا مشورہ دیا۔ عمران خان نے اسے ایک دانشمندانہ فیصلہ قرار دیتے ہوئے اتفاق کیا۔ بعد میں، ایک تیسرے ملک کی کوششوں سے بھارت نے رازداری کے ساتھ پاکستان کے اقدام کو سراہا۔ بھارتی فضائیہ کی جانب سے پاکستان کا ایف 16 طیارہ مار گرانے کے سوال پر ذریعے نے مسکراتے ہوئے کہا بکواس۔ پاکستان کے تمام ایف 16 محفوظ ہیں اور یہ تصدیق امریکا نے خود کی ہے۔