’’ نہیں وہ تو بہت سیدھے سادے آدمی تھے ۔ان کی بھلا کسی سے کیسے دشمنی ہو سکتی تھی۔ وہ تو مجھ جیسے ملازم کے بھی دوست تھے ۔جس سے ایک بار مل لیتے، اس کے دوست بن جاتے تھے۔‘‘
’’ پچھلے کچھ دنوں سے ان کا رویہ کیسا تھا ،میرا مطلب ہے کوئی ٹینشن وغیرہ تھی ان کو ؟‘‘
’’ ٹینشن ۔۔ہاں ایک چھوٹی سی ٹینشن تو تھی ۔‘‘
عمر اور علی نے چونک کر اس کی طرف دیکھا ۔’’ کیسی ٹینشن ۔۔؟‘‘
’’ان کے گھر میں چوری ہو گئی تھی، ویسے کچھ خاص نقصان نہیں ہو اتھا لیکن اس کے بعد سے وہ گھبرائے گھبرائے سے رہنے لگے تھے۔ کبھی کہتے کہ دکان کے باہر کوئی گاڑی کھڑی ہے ۔کبھی کہتے کہ کوئی ان کا پیچھا کر رہا ہے۔‘‘
’’ اوہ ۔۔‘‘دونوں کے منہ سے نکلا۔ کیا واقعی ایسا تھا، مطلب کوئی ان کا پیچھا کرتا تھا یا کوئی گاڑی کھڑی ہوتی تھی یہاں؟‘‘
اس نے انکار میں سر ہلایا ۔’’ نہیں ،مجھے لگتا تھا ان کو کوئی وہم ہو گیا تھا ۔میں انہیں سمجھاتا رہتا تھا، اب سمجھ میں آرہا ہے کہ کوئی واقعی ان کے پیچھے لگا ہوا تھا، ان کا خوف غلط نہیں تھا ۔‘‘اس کی آنکھوں میں آنسوگئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ندیم ارشادی سے سوائے اس کے کوئی خاص بات نہیں معلوم ہوئی کہ، مقتول کے گھر کچھ عرصہ پہلے چوری ہوئی تھی ،اس چوری کے واقعے کے بعد سے وہ بہت گھبرایا ہوا رہنے لگا تھا، اسے لگتا تھا کہ کوئی اس کا تعاقب کر رہا ہے، اسے اپنے اسٹوڈیو کے سامنے کوئی گاڑی بھی کھڑی دکھائی دیتی تھی جس کے بارے میں اس کا خیال تھا کہ وہ اس کے چکر میں ہے‘‘ ۔عمر نے ابو جی کو سیل فون پر رپورٹ دیتے ہوئے کہا۔
’’ شاباش ۔۔اچھی پروگریس ہے ۔‘‘ ابو جی نے دوسری طرف سے کہا ۔
’’ اب کیا کریں ‘‘۔ عمر نے پوچھا۔
’’ تم وہاں سے مقتول کے گھر پہنچو ۔‘‘
’’ ٹھیک ہے ۔‘‘ عمر نے جواب دیا اور فون کال منقطع کردی ۔
’’ کیا کہا ابو جی نے ۔؟‘‘ علی نے پوچھا ۔
’’ جاوید باقری کے گھر پہنچنے کا کہا ہے ۔؟‘‘
’’ کیوں ۔۔؟‘‘
’ یہ تو انہوں نے نہیں بتایا ۔۔‘‘ان کی ٹیکسی دکان کے سامنے ہی کھڑی تھی، وہ اسی کے ذریعے کچھ ہی دیر میں جاوید باقری کے گھر پہنچ گئے ۔
ان کے ابو جی کی گاڑی باہر ہی کھڑی تھی، اور وہ گاڑی ہی میں بیٹھے ان کا انتظار کر رہے تھے۔ گاڑی سے اُتر کرانہوں نے دروازے پر دستک دی تو ایک عورت نے دروازہ کھولا اور انہیں سادہ سے ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔
جاوید باقری کی لاش رات کو ہی پوسٹ مارٹم کے بعد ورثا کے حوالے کر دی گئی تھی اور ظہر کی نماز کے بعد اس کی تدفین بھی ہو چکی تھی ۔
جاوید کی ماں دیگر عورتوں کے ساتھ دوسرے کمرے میں بیٹھی سسکیوں کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کر رہی تھی۔
وہی عورت کچھ دیر میں جاوید کی ماں کو لے کر آگئی ۔’’ جی ۔۔فرمائیے ۔۔‘‘
’’ ہم آپ کے بیٹے کے قتل کی تفتیش کر رہے ہیں ۔۔‘‘ احمد صدیقی نے کہا ۔
’’ جی مجھے معلوم ہے ۔‘‘
’’ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ کچھ دن پہلے آپ کے گھر میں چوری ہو گئی تھی ۔؟‘‘
جاوید کی ماں نے بھیگی نظریں اٹھا کر دیکھا اور اثبات میں سر ہلایا۔
’’ اور اس چوری کے بعد سے آپ کا بیٹا کچھ گھبرایا سا رہنے لگا تھا ۔؟‘‘
اس کی ماں نے ایک طویل سانس لے کر کہا،’’وہ گھبرائے گا نہیں تو کیا کرے گا، اس چوری کے واقعے سے وہ بہت خوف زدہ ہوگیا تھا ۔‘‘
’’ اس کی کوئی خاص وجہ ۔۔؟‘‘ علی نے پوچھا۔
’’ یہ تو مجھے نہیں معلوم ،مگر وہ گھبرانے ضرور لگا تھا ۔‘‘
’’ کب ہوئی تھی چوری ۔؟‘‘احمد صدیقی نے پوچھا
’’ پچھلے مہینے۔ کی اٹھائیس تاریخ کی رات کو ۔‘‘
’’ آپ لوگ ظاہر ہے گھر میں ہی ہوں گے اس وقت ۔؟
’’ نہیں ۔‘‘ بوڑھی عورت نے انکار میں سر ہلایا۔
’’ ہم گھر میں نہیں تھے۔ جاوید مجھے ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا ہوا تھا۔ واپس آکر دیکھا تو دروازے کا تالا ٹوٹا ہوا تھا اور گھر کاسامان ادھر ادھر بکھرا پڑا تھا۔‘‘
احمد صدیقی نے پھر پوچھا،’’ کیا کیا چوری ہوا تھا ۔؟‘‘
’’ کچھ بھی نہیں ۔؟‘‘
’’ کیا مطلب۔؟‘‘ وہ بری طرح چونکے۔
’’ مطلب یہ کہ کچھ بھی چوری نہیں ہوا تھا۔ چور کچھ چرا کر نہیں لے گیا تھا۔‘‘
احمد صدیقی سوچ میں پڑگئے ۔’’بڑی عجیب بات ہے کہ چور نے پورے گھر کی ہر چیز الٹ پلٹ کررکھ دی ،مگر لے کر کچھ نہیں گیا ۔‘‘
’’ الماری میں کچھ زیور اور تھوڑی نقدی تھی وہ بھی جوں کی توں ملی۔‘‘ جاوید باقری کی ماں نے کہا۔
’’اوہ ۔۔ آپ نے پولیس میں رپورٹ درج کرائی تھی؟‘‘
’’ کرائی تھی اگلے دن جاوید نے مجھے بتایا تھا کہ ا س نے پولیس اسٹیشن میں رپورٹ درج کرادی ہے ۔‘‘
’’ اچھا، میں معلوم کرتا ہوں ۔‘‘
احمد صدیقی نے اپنا سیل فون نکالااور اس علاقے کے ایس ایچ او کو فون کیا ۔اگلے ہی لمحے ایک کھنکتی ہوئی آواز سنائی دی ۔’’ کیسے مزاج ہیں احمد بھائی، آج کیسے یاد کرلیا ۔؟‘‘
’’ ایک کام تھا، ارجنٹ ۔۔؟‘‘
’’ حکم کرو احمد بھائی ۔‘‘
’’تمہارے علاقے میں پچھلے مہینے کی اٹھائیس تاریخ کو مکان نمبر سولہ بی، گلی نمبر تین میں ایک چوری ہو ئی تھی۔ کیا تم مجھے اس کی ایف آئی آر کی نقل واٹس ایپ کرسکتے ہو ۔؟‘‘
’’ بس،اتنا سا کام ۔۔ابھی پانچ منٹ میں بھیجتا ہوں اور کوئی حکم ہو تو بتائیں۔‘‘
’’ نہیں فی الحال یہی کام بہت اہم ہے ۔‘‘
احمد صدیقی نے فون کال منقطع کردی ۔
’’ یہ کون تھا ابو جی ۔؟‘‘ عمر نے پوچھا۔
’’ اِس علاقے کا ایس ایچ او رانا نعیم۔‘‘
اس دوران جاوید کی ماں نے ان سے چائے کا پوچھا، تو انہوں نے انکار کردیا ۔
’’ نہیں شکریہ ۔‘‘اسی وقت ان کے فون کی بیل بجی ۔انہوں نے فون اٹھایا ۔’’ ہیلو ۔‘‘
پھر وہ دوسری طرف کی بات سنتے رہے ۔’’ اچھا ٹھیک ہے‘شکریہ بہت ۔‘‘ انہوں نے رابطہ منقطع کردیا اور جاوید کی ماں کی طرف متوجہ ہوئے ۔’’ آپ کے بیٹے نے پولیس اسٹیشن میں چوری کی رپورٹ درج نہیں کرائی تھی ۔‘‘
’’ کیا مطلب ؟‘‘ وہ بری طرح چونکیں ۔
’’مطلب یہ کہ، آپ کے بیٹے نے کوئی رپورٹ درج نہیں کرائی تھی چوری کی ۔‘‘
جاوید کی ماں حیرانی سے ان کی طرف دیکھنے لگی ۔
’’ تو پھر ۔ اس نے مجھ سے یہ کیوں کہا کہ ،اس نے رپورٹ درج کرادی ہے ۔‘‘
’’ ہوگی اس کی کوئی وجہ ،خیر یہ بتائیں، جاوید نے یہ اسٹوڈیو کیسے کھولا تھا۔ وہ اکیلا تھا یا کوئی پارٹنر بھی تھا اس کے ساتھ۔؟‘‘
جاوید کی ماں حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگی ۔’’ میں سمجھی نہیں۔اس سوال کا کیا تعلق ہے میرے بیٹے کی موت سے ۔؟‘‘
احمد صدیقی نے ایک طویل سانس لے کر کہا ۔’’ ہم جب کسی کیس کی تفتیش کرتے ہیں تو ہر زاویے سے کیس کو دیکھتے ہیں ممکن ہے ۔۔پراپرٹی کا کوئی تعلق ہو جاوید کی موت سے۔‘‘
جاوید کی ماں نے ایک لمحہ سوچا پھر بولی ۔’’ یہ اسٹوڈیو جاوید نے کوئی چار سال پہلے شروع کیا تھا، مگر پیسے سلطان صاحب نے دیے تھے ‘‘
’’ سلطان ۔؟ یہ کون ہے۔؟‘‘
’’ جاوید جس اخبار میں کام کرتا تھا، ا س کے مالک کا نام ہے ۔وہ اس اخبار میں فوٹو گرافر کا کام کرتا تھا، پھر اس نے ایک دن بتایا کہ اس کا مالک اس کے کام سے بہت خوش ہےاور اس کے خواب کی تکمیل کے لیے اس نے اسے اتنے پیسے دیے ہیں کہ وہ اب اپنا فوٹو اسٹوڈیو بنا سکتا ہے، پھر اس نے اسٹوڈیو بنا لیا اور ساتھ اس اخبار کے لیے بھی کام کرتارہا ۔‘‘
’’ کیا نام ہے اخبار کا ۔؟‘‘‘‘
’’ صبح نو ۔‘‘
احمد صدیقی نے چونک کر ان کی طرف دیکھا ۔’’ اوہ، مگر اس اخبار کے مالک کا نام تو سلطان نہیں ہے، رمزی آفاق ہے۔ میں انہیں جانتا ہوں ۔‘‘سب حیرانی سے ان کی طرف دیکھنے لگے ۔۔۔۔۔۔۔ ( جاری ہے)