تحریر… مولانا سید حسن ظفر نقوی ’’قتیلِ عدالت‘‘یہ ہے امیرا لمومنین ؑ کے القابات میں سے ایک ایسا لقب جو آپؑ کی مظلومیت کو بھی ظاہر کرتا ہے اور عدالت کے مقام کو بھی مقرر کرتا ہے کہ اگر کسی معاشرے میں عدل وانصاف نہ ہو تو لاکھ اس معاشرے کے حکمران اچھے ہوں ،عوام اچھی ہو،وہ معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔ ’’قتیل ِ عدالت‘‘ یعنی وہ ہستی جو عدالت کے قیام کی خاطر اپنی جان سے گذر گئی اور آج تک دنیا بھر کے رہنماؤں کے لئے آپ کی ہستی ضرب المثل ہے ۔آپؑ کے خطبات،آپؑ کا عمل قیامت تک کے لئے گواہی دیتا رہے گا کہ آپؑ نےعدل وانصاف کے قیام کی راہ میں کسی رعایت سے کام نہیں لیا۔اپنے پرائے کسی کی پروا نہیں کی۔ قرابت داری کی بنیاد پر کسی کو ایک ڈھیلا بھی نہیں دیا۔ آپ کے سگے بھائی عقیل ابن ابن طالب سخت معاشی مشکلات کا شکار تھے اور گھر میں فاقوں کی نوبت آگئی تھی، اور جب یہی عقیل مالی مدد طلب کرنے امیرالمومنین کے دروازے پر آئے تو آپ نے بیت المال سے کچھ بھی دینے سے صاف انکار کر دیا۔ حالانکہ یہی وہ عقیل ہیں جن کی اولاد کربلا میں امام حسینؑ پر قربان ہوئی۔ دنیا سے امیرالمومنین علی ابن ابی طالب کی یہی عدالت برداشت نہ ہوئی اور مراعات کا طالب طبقہ آپ کی مخالفت میں سرگرم عمل ہوگیا۔ آپ نے اپنے دور میںسرمایہ دار طبقہ کو غریبوں پر کوئی فوقیت نہیں دی ۔ آپؑمحروم طبقے کے سرپرست بن گئے کیونکہ حاکم رعایا کا باپ ہوتا ہے ۔آپ نے عملی طور پر مظلوم اور محروم رعایا کو ان کے باپ کی طرح حق دلایا۔آپؑ نے ظاہری امارت سنبھالتے ہی اعلان کر دیا تھا کہ : ’’بیت المال سے لوٹا ہوا مال واپس لینے تک چین سے نہیں بیٹھوں گا،حتی اگر بیت المال سے کسی کے مہر میں ایک کان کی بالی بھی دی گئی ہے تو وہ بھی واپس لاؤں گا۔‘‘ خاص طور پر قاضیوں کے مقرر کرنے کے معاملے میں آپؑ بہت سخت تھے، دینداری، تقویٰ اور معاشرے میں اس کی نیک نامی ،علمی قابلیت وہ بنیادی شرائط تھیں جن کا خیال رکھا جاتا تھا۔ آپؑنے قاضیوں کو اتنا وظیفہ دینے کا حکم جاری کیا کہ وہ تنگ دست نہ رہیں اور تنگدستی کے ہاتھوں مجبور ہو کر رشوت خوری کی طرف نہ چلے جائیں ،اگراس کے باوجود بھی کسی قاضی کی شکایت ملتی تھی تواسے فوراً معزول کردیتے تھے اور سزا بھی دی جاتی تھی ۔ایسا نہیں تھا جیسا آج ہے کہ قاضی سے کوئی سوال جواب ہی نہیں کر سکتا۔مولائے متقیانؑ نے لوگوں کو حق دیا تھا کہ وہ قاضی سے وہیں عدالت میں سوال جواب کریں اور اگر کسی سائل کو ذرا بھی شبہ ہوتا تھا کہ قاضی کسی اور فریق کی حمایت کررہا ہے تو اس سائل کی شکایت پر قاضی کو بدل دیا جاتا تھا۔ امیرالمومنین ؑ نے قاضیوں کی نگرانی کا نظام مقرر کیا اوران کے معاشی حالات کی پل پل کی خبر رکھتے تھے ۔ایک بار کوفے کے ایک قاضی کے بارے میں خبر دی گئی کہ اس نے اپنی آمدنی سے زیادہ مالیت کا گھر خریداہے،آپؑ نے فوراًاسے طلب کیا اور جواب طلبی کی کہ: ’’تم نے یہ گھر کس آمدنی سے خریدا ،کہیں تم نے کسی فریق سے کوئی رشوت تو طلب نہیں کی ،کہیں کسی کے حق میں فیصلہ دینے کے لئے مال تو نہیں لیا۔‘‘ جب وہ قاضی تسلی بخش جواب نہ دے سکا توآپؑ نے اسے فوراً معزول کر دیا۔ایسا ہی سلوک آپؑ نے کچھ اور قاضیوں کے ساتھ بھی کیالیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ غریب اور محروم طبقہ انصاف کے حصول کے لئے عدالتوں کے دھکے کھاتاپھرتا ہےاور نہ صرف یہ کہ اسے انصاف نہیں ملتا بلکہ اس پر مزید ظلم یہ ہوتا ہے کہ زور آور طبقہ کے حق میں انصاف کا پلڑا جھک جاتا ہے اور پھر یہی غریب انسان زور آور طبقہ کے انتقام کا نشانہ بھی بن جاتا ہے ۔ امیرالمومنین ؑنے عام آدمی کو بھی اتنا حق دے دیا تھاکہ وہ بھری عدالت میں کھڑ اہو کر حاکمِ وقت کے خلاف شکایت کر سکتا تھا اور خود قاضی کے خلاف بھی آواز بلند کر سکتا تھا۔آپؑ کو ایک بار ایک مقدمے کے سلسلے میں عدالت جانا پڑا تو قاضی آپؑ کے احترام میں اپنی کرسی سے کھڑا ہو گیاجس پر آپؑ نے قاضی کہ سرزنش کی کہ: ’’تمہارے اس عمل سے یہ تاثر جا رہا ہے کہ تمہارا جھکاؤ میری طرف ہے جبکہ یہ عدالت ہے ،یہاں آنے والے سب فریق برابر ہیں ۔‘‘ اورآپؑ نے اس قاضی کو منصب سے الگ کر دیا۔آج لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگ اپنے اوپر ظلم ہونے کے باوجودعدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے سے گریز کرتے ہیں ،پولیس کے پاس جانے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ انہیں یہ یقین ہوتا ہے کہ ان پر ہونے والے ظلم کا تو مداوا ہونانہیں ہے بلکہ جو ان کے پاس بچا ہے وہ بھی چھین لیا جائے گا۔آج سرمایہ دار،جاگیردار اور سرداراپنے سامنے سر اٹھانے والے کو بے دردی سے قتل کروا دیتے ہیں اور پھر سینہ تان کر عدالتوں سے بری ہوجاتے ہیں۔ محرابِ کوفہ میں علیؑ کے سر پر لگنے والی ضربت اصل میں’’فرقِ عدالت‘‘ پر لگی تھی ، امیرالمومنین ؑ کی شہادت کے بعد آج تک ’’منبرِ عدالت‘‘ایک عادل کا انتظار کررہی ہے ۔ظلم و جور سے پر جہاں علیؑ کے بیٹے کا انتظار کررہا ہے کہ کب وہ آئے اور کب یہ ظلم کا نظام اپنے انجام کو پہنچے۔ جو ہاتھ تھے شہادت حیدرؑ کے ذمہ دار مصروف آج بھی ہیں وہی واردات میں