’’عیدُالفطر‘‘اہلِ ایمان کے لیے رمضان المبارک کی عبادت و ریاضت کا انعام، اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزے داروں کے اعزاز و اکرام اور اللہ کے نیک، عبادت گزار، پرہیزگار بندوں کی مسرّت و شادمانی کا دن ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’عیدُالفطر اور عیدالاضحی‘‘ مسلم امّہ کے توحیدی مزاج اور اس کے دینی و ملّی اقدار کے پوری طرح آئینہ دار ہیں اور تہذیب و شائستگی کا یہ جشنِ مسرّت ’’یومِ عید الفطر‘‘ اہلِ ایمان کے دینی و مذہبی تشخّص کا مظہر ہے۔
یہ مبارک و پُرمسرّت روزِ سعید تقویمِ عیسوی کے مطابق27مارچ 624ء/ مطابق یکم شوّال 2ھ سے منایا جارہا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ فخرِ دوعالم، حضرت محمد ﷺ نے ’’عیدالفطر کی عظمت و اہمیت کے حوالے سے ایک خطبہ دیا، جس میں آپﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ’’جب عیدالفطر کی رات ہوتی ہے، تو اس کا نام آسمانوں پر ’’لیلۃ الجائزہ‘‘ انعام کی رات سے لیا جاتا ہے۔
چناں چہ جب لوگ عیدگاہ کی طرف نکلتے ہیں، تو حق تعالیٰ شانہ فرشتوں سے دریافت فرماتا ہے، ’’کیا بدلہ ہے اس مزدور کا، جو اپنا کام پورا کرچُکا ہو۔‘‘ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ ’’ہمارے معبود اور ہمارے مالک! اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے۔‘‘ تو حق تعالیٰ شانہ ارشاد فرماتا ہے کہ ’’اے فرشتو! مَیں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ مَیں نے اپنے ان بندوں کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے عوض اپنی رضا اور مغفرت عطا کردی۔‘‘ پھر بندوں سے خطاب کرکے ارشاد فرماتا ہے، ’’میری عزت کی قَسم اور میرے جلال کی قَسم، مَیں تمہیں مجرموں کے سامنے رسوا نہ کروں گا، بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جائو، تم نے مجھے راضی کردیا اور میں تم سے راضی ہوگیا۔‘‘ (الترغیب و الترہیب)
’’عید‘‘ کا لفظ تین حروف پر مشتمل ہے۔ اس کے لفظی و اصطلاحی معنیٰ بھی تین ہیں۔
(1) ’’عید‘‘ کا لفظ ’’عود‘‘ سے مشتق ہے، جس کے معنی واپس اور لوٹ کر آنے کے ہیں۔ چوں کہ عید ہر سال واپس لوٹ کر آتی ہے، اس لیے اسے عید کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
(2) ’’عید‘‘ کے دوسرے معنیٰ توجّہ کرنے کے ہیں، چوں کہ عید کے دن اللہ تعالیٰ اپنے عاجز و بے بس بندوں پر رمضان المبارک میں کی گئی اُن کی عبادات اور نیک اعمال پر رحم و کرم فرماتا ہے، اُنھیں اعزاز و اکرام سے نوازتا ہے، اس لیے اللہ عزّوجل کی خاص عنایات، فضل و کرم اور خصوصی توجّہ کی وجہ سے اسے عید کہا جاتا ہے۔
(3) ’’عید‘‘ کے لفظی معنیٰ مسرّت و انبساط کے بھی ہیں، چوں کہ اس روزِسعید اہلِ ایمان جشنِ مسرّت مناتے اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں، لہٰذا محاورتاً اسے عید کہا جاتا ہے۔ تاریخی روایات کے مطابق کرّۂ ارض پرجشنِ مسرّت یا خوشی اور شادمانی سے بھرپور تہوار منانے کا آغاز اُس روز سے ہوا، جس دن حضرت آدمؑ کی توبہ بارگاہِ الٰہی میں قبول ہوئی۔
گویا یہ دنیا کی پہلی عید تھی، جو اس خوشی میں منائی گئی۔ دوسری عید یا یومِ مسرّت اُس وقت منایا گیا، جب حضرت نوحؑ اور ان کی امّت کو طوفانِ نوح ؑ سے نجات ملی۔ حضرت ابراہیم ؑ خلیل اللہ پر جب آتشِ نمرود گل زار بنی، اُس روز کی مناسبت سے ان کی امّت عید منایا کرتی تھی۔ حضرت یونسؑ کی امّت اُس روز عید مناتی تھی، جب حضرت یونسؑ کو مچھلی کے پیٹ اور امتحان سے رہائی ملی۔
بنی اسرائیل اُس روز عید منایا کرتے تھے، جس روز انہیں فرعون اور اس کے مظالم سے نجات ملی۔ جب کہ عیسائی اُس روزعید مناتے ہیں، جس روز حضرت عیسیٰؑ کی ولادت ہوئی۔ اس کے برخلاف اہلِ ایمان کا فلسفۂ عید اور اس کا تصوّر بالکل منفرد اور نرالی شان کا حامل ہے۔
’’بُلوغ الارب فی احوال العرب‘‘ کے مولّف محمود شُکری آلوسی کے مطابق ’’عہدِ جاہلیت میں مشرکینِ عرب میں متعدد عیدوں کا تصوّر موجود تھا۔ بعض اُن کی مکانی عیدیں تھیں اور بعض زمانی، یہ موسمی تہوار کے طور پر منائی جاتی تھیں، چناں چہ وہ اپنے تین مشہور بُتوں ’’لات‘‘، ’’منات‘‘ اور ’’عُزّیٰ‘‘ کے ناموں پر دُور دراز کا سفر کرکے اُن کے سامنے نذرانے پیش کرکے عید مناتے تھے۔ ان تینوں بُتوں میں سے ہر بُت کسی نہ کسی شہر کے لیے مخصوص تھا۔
وہ شہر، جو حرم اور میقاتِ حج کی جہت میں تھے۔ مکّہ، مدینہ اور طائف، چناں چہ ’’لات‘‘ اہلِ طائف کا بُت تھا۔ عُزّیٰ اہلِ مکّہ کا اور منات اہلِ مدینہ کا بُت تھا۔ ان تینوں بُتوں کے پاس جمع ہونے اور تہوار منانے کے لیے دورِ جاہلیت کے عربوں نے سال میں مخصوص ایّام اور موسم مقرر کر رکھے تھے، جب کہ عربوں کی زمانی عیدیں کسی خاص تاریخی واقعے، جنگ میں فتح یابی، دشمن پر غلبہ پانے کے حوالے سے خوشی، تفریح اور میلوں وغیرہ کے لیے مخصوص ہوتی تھیں۔ یہ عید ایک خاص قوم کی ہوتی تھی۔ دوسری کسی قوم کو اس میں شرکت کی اجازت نہ تھی۔
چناں چہ ایسا بھی ہوتا کہ ایک ہی دن ایک قوم کے لیے خوشی اور اظہارِ مسرّت کا ہوتا اور دوسری کے لیے غم اور بدبختی کا۔اس حوالے سے عید کے دو دن ’’یوم السّبع اور یوم السّبا‘‘ خاص دن شمار ہوتے تھے۔ اہلِ مدینہ کے ’’عید‘‘ کے حوالے سے دو دن مخصوص تھے، جن میں وہ اظہارِ مسرّت کے طور پر جشن مناتے، کھیلا کودا کرتے، جب نبی اکرم ﷺ مدینۂ طیّبہ تشریف لائے، تو آپؐ نے فرمایا۔’’اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان کا نعم البدل ’’عیدین‘‘ کی شکل میں عطا فرما دیا ہے۔ عیدالفطر اور عیدالاضحی۔‘‘
ایران کے مجوسی نیروز یا نوروز کے نام سے عید مناتے ہیں، یہ اُن کا سب سے بڑا پُرمسرّت مذہبی تہوار ہے۔ ان کی عید کا دوسرا دن مہرجان ہے۔ مؤرخین کا خیال ہے کہ اہلِ ایران نے نوروز کا دن مہرجان کے دن سے دو ہزار پانچ سو سال قبل منانا شروع کیا تھا۔ ان دونوں تہواروں کے موقعے پر انہیں مُشک، عنبر اورعُودِ ہندی تحفتاً دی جاتی تھی۔ نوروز کے موقعے پر وہ ایک دوسرے کو زعفران اور کافور پیش کیا کرتے تھے۔
ہندو مت میں عید یا پُرمسرّت مذہبی تہواروں کے حوالے سے جو تصوّر ملتا ہے، اس کے مطابق ’’دیوالی‘‘ اور ’’ہولی‘‘ ان کے دو مقدّس مذہبی تہوار ہیں۔ ’’دیوالی‘‘ کے موقعے پر دِیے وغیرہ جلائے جاتے ہیں، چراغاں کیا جاتا ہے، یہ تہوار شری رام بھگوان کی یاد میں منایا جاتا ہے، جب کہ ’’ہولی‘‘خوشی اور اظہارِ مسرّت کا وہ تہوار ہے، جب اس مذہب کے پیروکار ایک دوسرے پر رنگ وغیرہ پھینکتے ہیں۔ یہ ’’ہولکا ماتا‘‘ کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ جب کہ الہامی مذاہب میں عیسائیوں اور یہودیوں کی عیدیں مقدّس مذہبی تہواروں کے طور پر منائی جاتی ہیں۔ ’’معجم البلدان‘‘ کے مؤلف، یاقُوت حموی کے مطابق نصاریٰ کی چودہ عیدیں ہیں۔ سات کو وہ بڑی عیدیں کہتے ہیں اور سات کو چھوٹی۔
اُن کی بڑی عیدیں یہ ہیں۔ ’’بشارت‘‘، ’’زیتونہ‘‘، یہی عیدالشّعانین (PAM SUNDAY) بھی ہے۔ اس کے معنیٰ تسبیح کے ہیں۔ وہ اسے روزوں کے ساتویں اتوار کو مناتے تھے۔ ’’فصح‘‘ یہ اُن کی بڑی عید ہے‘‘۔ ’’خمیس الاربعین‘‘عید الخمیس یہی عیدالعنصرہ (Pentacost Whit Sunday) یہ تہوار ایسٹر سے پچاس دن بعد منایا جاتا ہے۔ ’’عیدالمیلاد‘‘ وہ دن، جس روز حضرت عیسیٰؑ کی ولادت ہوئی۔ ’’غطاس‘‘ اس دن عیسائی اپنے بچّوں کو پانی میں غوطہ دیتے ہیں۔
’’اربعون‘‘ یہ ہیکل میں داخل ہونے کا جشن ہے۔ ’’خمیس العید‘‘ (Holy Thursday) ’’سبت النّور‘‘ یہ ایسٹر سے ایک دن پہلے منایا جاتا ہے۔ ’’احدالجدید‘‘ یہ ایسٹر سے آٹھ دن بعد منایا جاتا ہے۔ ’’تجلّی‘‘ عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق، حضرت مسیح ؑ نے آسمان کی طرف اٹھائے جانے کے بعد اس دن اپنے شاگردوں کو جلوہ دکھایا تھا۔ ’’عیدالصّلیب‘‘ یہ بھی ان کا مقدّس مذہبی تہوار اور عید کا دن ہے۔یاقُوت حموی کے مطابق یہودیوں کی پانچ عیدیں ہیں۔ جن کا ذکر ’’تورات‘‘ میں آیا ہے، جو یہ ہیں۔
’’عید رأس السَّنہ‘‘ (نئے سال کی عید) یہودیوں کے یہاں اس دن کی وہی حیثیت ہے، جو ہمارے یہاں عیدالاضحی کی ہے۔ ’’عیدالمظال‘‘ یہ آٹھ دن رہتی ہے۔ ’’عیدالاسابیع‘‘ (Ten Command Ments) ان کے اعتقاد کے مطابق یہ وہ دن ہے، جس دن اللہ تعالیٰ نے طورِ سینا پر بنی اسرائیل سے خطاب کیا تھا۔ اس خطاب میں احکامِ عشرہ بھی شامل تھے۔ ’’عیدالفور‘‘ یہودیوں کی نئی ایجاد ہے۔ ’’عیدالحنکہ‘‘ یہ بھی نئی ایجاد ہے۔ یہ آٹھ دن تک رہتی ہے۔
مذاہبِ عالم میں عید کے حوالے سے ان افکار و تصوّرات کے برخلاف، اسلام میں عید کا فلسفہ اور پس منظر اس حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ جب مکّے سے ہجرت فرما کر مدینۂ منورہ تشریف لائے، تو اہلِ مدینہ (جن کی ایک بڑی تعداد دائرۂ اسلام میں داخل ہوچکی تھی) جشن و مسرّت کے دو تہوار منایا کرتے تھے۔
رسول اکرمﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کہ ’’یہ دو دن جو تم مناتے ہو، ان کی کیا حقیقت (پس منظر) ہے؟ (یعنی تمہارے ان دو تہواروں کی حقیقت اور تاریخ کیا ہے؟)‘‘ انہوں نے عرض کیا ’’ہم جاہلیت میں (قبل از اسلام) یہ دو تہوار منایا کرتے تھے، (لہٰذا وہی رواج ہم میں ابھی تک باقی چلاآرہا ہے)‘‘ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا’’ اللہ تعالیٰ نے ان دو تہواروں کے بدلے اُن سے بہتر دو دن تمہارے لیے مقرر فرمادیے ہیں، (لہٰذا اب وہی تمہارے قومی اور مذہبی تہوار ہیں) یوم عیدالاضحیٰ اور یوم عیدالفطر۔‘‘ (سنن ابو دائود)۔
محمود شُکری آلوسی لکھتے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ اسلام سے قبل مدینے والوں کے کھیل کود اور پُرمسرّت تہوار کے یہ دو دن نوروز اور مہرجان تھے۔ (بلوغ الارب فی احوال العرب 187/2)۔ وہ مزید لکھتے ہیں۔ ’’ان دونوں دنوں کو اس لیے بدل دیا گیا کہ اسلام میں عید منانے کا سبب دینی شعار کو بلند کرنا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اس بنیاد پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اُن کی عادات اور سابقہ رسم و رواج پر یوں ہی چھوڑ دیا، تو ایسا نہ ہو کہ جاہلیت کے شعائر کی تشہیر ہوتی رہے، یا وہ اپنے اسلاف کی رسوم کو رواج دیتے رہیں۔
لہٰذا آپؐ نے ان تہواروں کو بدل کر انہیں ایسے دن عطا فرمائے، جن میں ملّتِ حنیفیہ کے شعائر کو بلند کیا جائے۔ آپؐ نے عیدین کے تہوار کے موقعے پر زینت و آرائش کے ساتھ ساتھ ایک اور بات کا اضافہ بھی کردیا، یعنی اللہ کا ذکر اور اس کی عبادت۔ آپؐ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کا کوئی بھی اجتماع اور مذہبی تہوار اعلائے کلمۃ اللہ سے خالی نہ ہو۔
’’عیدین‘‘ کے دینی و ملّی تہوار، مسلم امّہ کی قومی و ثقافتی زندگی کے دو اہم اور سرُور آفریں مواقع ہیں۔ اس حوالے سے مسرّت و شادمانی کا اظہار فطری بھی ہے اور برمحل بھی۔ تاہم، اس کے ساتھ ساتھ اسلام جیسے مثالی اور انقلابی ضابطۂ حیات نے خوشی اور غم کے موقعے پر کچھ حدود قائم کردی ہیں، عیش میں یادِ خدا اور طیش میں خوفِ خدا، ایک مومنِ صادق کا طرزِ عمل اور شعار ہوتا ہے۔ اس حقیقت کی ترجمانی کرتے ہوئے آخری مغل فرماں روا بہادر شاہ ظفر کیا خوب کہتے ہیں؎ ظفر، آدمی اس کو نہ جانیے گا، وہ ہو کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکاء.....جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی، جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا۔
صحابیِ رسولؐ، حضرت انس بن مالکؓ کے ارشاد کے مطابق، پانچ چیزوں کو عید کی روشن اور حقیقی علامت قرار دیا گیا ہے۔(1) اللہ کا خوف اور اس کی خشیّت، جو بندے کو گناہوں سے محفوظ رکھتے اور اسے اطمینانِ قلب عطا کرتے ہیں۔(2) گناہوں پر ندامت، جو بندۂ مومن کو شیطان کے مکرو فریب سے بچاتی اور آخرت کا خوف دلاتی ہے۔(3) عاجزی، انکساری اور اعترافِ بندگی۔ جس کی بدولت بندۂ مومن پُل صراط سے بہ آسانی گزر جائے گا۔(4) اطاعتِ الٰہی۔ جو بندے کو جنّت کی بشارت دیتی ہے۔(5) حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پابندی، جو بندے کو رضائے الٰہی سے بہرہ مند کرتی ہے۔ جس نے ان پانچ چیزوں کو پالیا، اس کی عید، حقیقی عید ہوگی۔
روایت کے مطابق رسول اکرمﷺ عید کے دن یہ دعا مانگا کرتے تھے۔’’اے پروردگار، ہم تجھ سے پاک و صاف زندگی اور ایسی ہی عمدہ موت طلب کرتے ہیں۔ ہمارا لوٹنا، ذلّت و رسوائی کا نہ ہو۔ پروردگار، ہمیں اچانک ہلاک نہ کرنا، نہ اچانک پکڑنا، اور نہ ایسا کرنا کہ ہم حق ادا کرنے اور وصیت کرنے سے بھی رہ جائیں۔ پروردگار، ہم تجھ سے، حرام سے اور دوسروں کے سامنے سوال بننے کی فضیحت سے بچنے کی دعا کرتے ہیں۔
اے اللہ! ہم تجھ سے پاکیزہ زندگی، نفس کا غنیٰ، بقا، ہدایت و کام یابی اور دنیا و آخرت کے انجام کی بہتری طلب کرتے ہیں۔ اے ہمارے پروردگار! ہم شکوک و شبہات اور آپس میں نفاق، ریا،بناوٹ اور دین کے کاموں میں دکھاوے کے عمل سے پناہ چاہتے ہیں۔ اے دِلوں کے پھیرنے والے رب! ہمارے دل ہدایت کی طرف پھیرنے کے بعد ٹیڑھے نہ کرنا، اور ہمیں اپنی طرف سے خاص رحمت عطا فرما، بے شک تُو سب کچھ عطا فرمانے والا ہے۔‘‘
مسلم امّہ آج جن بے پناہ مسائل اور چینلجز سے دوچار ہے اور جس طرح دورِ حاضر کی نمرودی اور فرعونی طاقتیں اور طاغوتی قوّتیں اسلام اور مسلم امّہ کے خلاف صف آرا ہیں،اس کا تقاضا ہے کہ ہم ’’بُنیانِ مرصوص‘‘ بن کر اخوّت ویگانگت اور اتحادِ امّت کا وہ نمونہ پیش کریں، جس کی تعلیم ہمارا دین دیتا ہے۔ اسی میں ہماری عظمت، بقا، اسلام کی سربلندی، دین کی سرفرازی اور امّتِ مسلمہ کی عظمت کا راز مضمر ہے۔
تسلیم ورضا، ایثار وہم دردی، اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی فرماں برداری، اعترافِ بندگی، تقویٰ وپرہیزگاری اور ربّ کی شکر گزاری میں عید کا فلسفہ اور پیغام پوشیدہ ہے۔ آج کے دن ہمیں دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کو اپنی خوشیوں میں یاد رکھنا اور انہیں سلامِ عقیدت پیش کرنا چاہیے۔
اسلام کے پیغامِ امن وسلامتی کو دنیا میں عام کرنا، انسانیت کو ہدایت کی راہ پر گام زن کرنا اور دکھی انسانیت کی فلاح کے لیے جدّوجہد کرنا ہمارے دین کی تعلیم اور اسلام کا بنیادی تقاضا ہے۔ اتحادِ امّت، دینی اقدار کا تحفّظ، اسلامی تعلیمات پر عمل اور دین سے گہری وابستگی میں ہماری شان و شوکت کا راز پوشیدہ ہے اور اُنہیں اپناکر، ان پر عمل کرکے ہی درحقیقت ہم حقیقی شادمانی اور مسرّت حاصل کرسکتے ہیں۔