• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکا، ایران ممکنہ نیوکلیئر ڈیل کے عالمی و علاقائی اثرات

صدر ٹرمپ’’ کم زور ایران‘‘ سے فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں، تو تہران کو اپنی سالمیت و ساکھ کی فکر ہے
صدر ٹرمپ’’ کم زور ایران‘‘ سے فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں، تو تہران کو اپنی سالمیت و ساکھ کی فکر ہے

گزشتہ تین ماہ میں دنیا کے لیے ایک زلزلے کی سی کیفیت رہی۔ یوں لگا، جیسے ہر چیز لرز رہی ہو۔ماہرین یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس زلزلے کے آفٹرشاکس کیا ہوں گے؟کیا دنیا اُسی جگہ رہے گی، جہاں تین ماہ قبل تھی۔کون جانے اِس دَوران کیا کیا ٹوٹ پُھوٹ ہوگئی۔ دنیا بھر کے بہت سے معاملات گزشتہ چار سالوں سے گویا منجمد تھے۔ کورونا وَبا کا جھٹکا شدید تھا، جس کے دَوران بڑی طاقتیں اور چھوٹے ممالک شاید یہی سوچتے رہے کہ پہلے حالات پُرسکون ہوجائیں، پھر آگے بڑھیں گے۔ 

کورونا کا اہم سبق’’بچت‘‘ تھا، اِسی لیے دنیا کی ترجیح سیاست کی بجائے معیشت ہوگئی، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ معیشت کے گرد گھومتی سیاست۔ وہ جو گلوبلائزیشن کا شور تھا، وہ ذاتی تحفّظ میں تبدیل ہوگیا اور ہر کوئی اپنی دنیا میں گم ہوگیا، نتیجتاً قوم پرستی مزید مضبوط ہوئی۔

دنیا بَھر کے لوگ وَبا سے جنم لینے والی تنہائی سے اِس قدر تنگ آچُکے تھے کہ وہ کسی نئے تنازعے کے لیے تیار نہ تھے۔یہ جو گزشتہ دنوں ہمارے مُلک میں پروپیگنڈا ہوا کہ سات، آٹھ لاکھ افراد بہتر زندگی کی تلاش میں مُلک چھوڑ کر چلے گئے، اِس کا سبب یہی عالمی معاشی دباؤ تھا، لیکن ہم نے بغیر سوچے سمجھے اسے اپنی سیاست اور سیاست دانوں سے جوڑ دیا۔بائیڈن کا چار سالہ دَور، جس میں عمومی طور پر عالمی رہنماؤں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، اِسی صُورتِ حال کی غمّازی کرتا ہے۔ پھر اچانک دو جنگوں سے بھی حالات نے کروٹ بدلی۔

صدر پیوٹن کے یوکرین پر حملے سے کورونا کے بعد ایک بار پھر منہگائی کی نئی لہر آئی۔ خیال تھا کہ کورونا کے بعد انسانی ہم آہنگی دیکھی جائے گی، لیکن اِس جنگ نے پھر دو کیمپ بنا دیئے، یورپ اور امریکا متحد ہوگئے۔دوسری طرف مشرقِ وسطیٰ میں حماس کے سات اکتوبر کے اقدام نے خطّے کا توازن بُری طرح بگاڑ دیا۔ امریکا، روس اور چین کی تمام تر توجّہ یوکرین کی جنگ پر تھی۔ 

غالباً پیوٹن نے کورونا کے بعد سوچا کہ یورپ کسی طویل جنگ کا متحمّل نہیں ہوسکے گا، اِس لیے اپنی چوہدراہٹ یورپ تک مستحکم کرلی جائے، پھر آگے سوچیں گے۔ مشرقِ وسطیٰ میں وہ ایران کی مدد سے شام میں قدم جمانے میں کام یاب ہوگیا، لیکن یوکرین اور غزہ، دونوں جنگوں میں امریکا اور یورپ کا ردّعمل اُس کے تمام اندازوں کے برعکس نکلا۔یوکرین جنگ چوتھے سال میں داخل ہوچُکی ہے، جب کہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت اٹھارہ ماہ سے جاری ہے۔

جوبائیڈن نے کام یابی سے مغربی اتحاد کو مضبوط رکھا، تاہم امریکی عوام اِس دوران غیر مطمئن رہے۔ایک تو اندرونی اقتصادی کم زوری اُن کے لیے تشویش کا باعث تھی کہ اِس وقت بھی امریکا دنیا کی سب سے مقروض قوم ہے، جس کا قومی قرض 36ٹریلین ڈالرز تک پہنچ چُکا ہے۔

دوسری جانب، اُنہیں یہ بھی محسوس ہوا کہ امریکی لیڈر شپ اپنا عالمی کردار نبھانے میں کام یاب نہیں۔ اُن کے مطابق، اسے دنیا کے ساتھ چلنے کی بجائے فیصلہ کُن کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ شاید اُن کے ذہن میں دوسری عالمی جنگ کے مناظر گھوم رہے تھے، جس میں مشرقی ایشیا اور یورپ، دونوں کو امریکا نے بدل ڈالا۔

اس کے لیے اُنہیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بہتر کوئی دوسرا لیڈر نظر نہ آیا۔ٹرمپ قوم پرست رہنما ہیں اور’’امریکا فرسٹ‘‘ پر جنون کی حد تک یقین رکھتے ہیں۔ گزشتہ تین ماہ میں وہ یہ تاثر مزید گہرا کرنے میں کام یاب رہے کہ جو کہتے ہیں، اُس پر عمل بھی کرتے ہیں، خواہ اُس کے کچھ بھی اثرات ہوں۔وہ روس سے ٹکرا گئے، غزہ میں دخل انداذی کی اور سب سے بڑھ کر ٹیرف کے ذریعے ایک تجارتی جنگ بھی شروع کردی۔ بیک وقت اِتنے محاذ آج کی پیچیدہ دنیا میں کھولنا آسان کام نہیں۔

یہ تو آنے والے دنوں میں پتا چلے گا کہ اِن اقدامات کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں، تاہم جو کچھ ہو رہا ہے، اس میں پہل ٹرمپ کر رہے ہیں اور باقی دنیا خواہ وہ اُن کے اتحادی ہوں یا مخالف، صرف ردّ ِ عمل تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ دنیا سے بھی ایک چُوک ہوئی کہ اُس نے ٹرمپ اور امریکی عوام کی موجودہ سوچ کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔

دنیا کا خیال تھا کہ وہ پہلا سال حالات دیکھنے میں گزار دے گی، دوسرے سال میں کچھ ہل چل کرے گی، جب کہ تیسرے سال کے بعد ٹرمپ کے جانے کا عمل شروع ہوجائے گا اور یوں قصّہ تمام ہوجائے گا، لیکن ٹرمپ کے اِس اعلان نے کہ وہ تیسری مرتبہ بھی صدر بنیں گے، چاہے اِس کے لیے کوئی بھی حربہ استعمال کرنا پڑے، دنیا، بالخصوص چین اور روس کے لیے ایک نئی پریشانی کھڑی کردی ہے، خاص طور پر جب کہ امریکی عوام بھی ٹرمپ کے ہر قدم پر اُن کا ساتھ دے رہے ہیں۔

اب مشکل یہ ہے کہ اکثر ممالک میں لیڈر بیس، بیس سال سے حُکم رانی کر رہے ہیں، ایسے میں کون ٹرمپ کا ہاتھ پکڑے گا۔ غالباً ڈیموکریٹس نے ٹرمپ کو چار سال کا وقفہ دے کر اُنہیں اچھی طرح منظّم ہونے کا موقع دیا۔ وہ اب ہر معاملے پر پوری طرح تیار نظر آتے ہیں اور روز ایک نئی پیش رفت کے ساتھ سامنے آرہے ہیں۔ میڈیا بالکل بے بس ہے، آزادیٔ اظہارِ رائے اور انسانی حقوق کی باتیں کرنے والے ادارے محض تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ 

صدر ٹرمپ کی فتح پر ہم نے کہا تھا کہ’’کسی خوش فہمی میں نہ رہیں، ٹرمپ اپنے ایجنڈے پر توجّہ دیں گے، کس مُلک میں کون اُن سے انسانی حقوق کے تحفّظ کی آس لگائے بیٹھا ہے، اِس سے اُنھیں کوئی غرض نہیں۔‘‘جب اُنہوں نے اپنی ٹیم تشکیل دی تھی، تو اُسی سے اندازہ ہوگیا تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ویسے یہ بھی ذہن میں رہے کہ جیسے ہمارے مُلک کی جماعتوں میں وَن مین شو چلتا ہے، یہی حالت امریکا میں ہے کہ کسی کی مجال نہیں کہ ٹرمپ کے سامنے دَم مارے۔ٹرمپ دَور میں کانگریس مین یا سینیٹر صرف بیان بازی کے شیر بن کر رہ گئے ہیں۔

اب ذرا اپنے خطّے کی سیاست پر نظر ڈال لیں۔ صد ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں آنے کے چند روز بعد ہی مشرقِ وسطیٰ میں ایران سے براہِ راست انگیج ہونے کا فیصلہ کیا۔ ماہرین اِسے عجیب سمجھے، کیوں کہ وہ اپنی پہلی ٹرم میں ایران سے ہونے والی نیوکلیئر ڈیل کو بدترین معاہدہ قرار دیتے رہے اور ایران کو مشرقِ وسطیٰ میں سارے فساد کی جڑ بھی قرار دیا۔

اُنہوں نے اس ڈیل سے امریکا کو نکال لیا، لیکن دوسری ٹرم کے تین مہینے بھی نہیں گزرے کہ وہ ایران کے ساتھ نیوکلیئر معاملات پر مذاکرات کا پہلا دَور مکمل کر چُکے ہیں۔ مذاکرات میں پہل بھی ٹرمپ ہی کی طرف سے ہوئی، جب اُنہوں نے ایران کے سپریم لیڈر، علی خامنہ ای کو براہِ راست خط لکھ کر مذاکرات کی دعوت دی۔ گو اس کا لہجہ ٹرمپ والا ہی تھا، جس میں اُنہوں نے خامنہ ای سے کہا کہ’’ایران مذاکرات کرے کہ یہ اس کے لیے بہتر ہوگا۔‘‘ایرانی عوام کو’’عظیم قوم‘‘ کہنے کے ساتھ ٹرمپ نے دھمکی بھی دی کہ اگر ایسا نہیں ہوا، تو وہ ایران پر بم باری کریں گے۔

ظاہر ہے، ایران نے اس پر میڈیا میں سخت مؤقف اپنایا، تاہم اطلاعات کے مطابق بات چیت کا بیک چینل فوراً ہی کُھل گیا، جس میں یورپی ممالک نے اہم کردار ادا کیا۔ سوال یہ ہے کہ امریکا اِسی وقت کیوں ایران سے کوئی معاہدہ کرنا چاہتا ہے۔ دراصل، ایران کی موجودہ حکومت کا منشور ہے کہ مغرب سے تعلقات بہتر کیے جائیں اور اِس کی وجہ ایران کی کم زور معیشت ہے، جو سنبھالے نہیں سنبھل رہی، جب کہ ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی اور ویزا پابندیوں نے صُورتِ حال مزید ابتر کردی ہے۔نیز، ایران کی تمام اتحادی ملیشیاز بھی اِن دنوں انتہائی کم زور پوزیشن پر آچُکی ہیں۔

حماس کی قیادت شہید ہوچُکی ہے اور اِسی طرح حزب اللہ بھی پے در پے نقصانات اُٹھانے کے بعد اب کسی فوجی تصادم کی متحمّل نہیں ہوسکتی۔ لبنان کے صدر بار بار اصرار کر رہے ہیں کہ اب لبنانی فوج ہی ہتھیار رکھ سکے گی، یعنی حزب اللہ کا کردار محض سیاسی رہ جائے گا۔ یہ صُورتِ حال ایران کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہے، کیوں کہ حزب اللہ ہی مشرقِ وسطیٰ میں باقی ملیشیاز کو سپورٹ کر رہی تھی اور وہی اُن کی’’ سورس آف پاور‘‘ تھی۔ اُسی نے شام میں روس اور ایران کے ساتھ مل کر بشار الاسد کا اقتدار مضبوط کیا تھا۔ بشار اب شکست کھا کر فرار ہوچُکا ہے، جب کہ ایران، روس اور حزب اللہ کا کردار دمشق میں ختم ہوچُکا۔

اب وہاں صدر احمد الشرع کے پاس کُلی اختیارات ہیں اور اُنہیں عالمی و عوامی حمایت بھی حاصل ہے۔ ایران، اسرائیل میں جو براہِ راست فوجی ٹکراؤ ہوا، اُس سے بھی ایران کو خاصا نقصان ہوا۔ شاید اِسی لیے اپنے سخت بیانات کے باوجود، وہ اومان کی ثالثی میں امریکا سے مذاکرات پر راضی ہوگیا۔مسقط میں ہونے والی بات چیت براہِ راست نہیں بھی تھی اور تھی بھی۔ وہ ایسے کہ مذاکراتی دَور میں امریکا اور ایران کے وفود دو الگ الگ کمروں میں بیٹھے اور اومانی وزیرِ خارجہ ان کے درمیان پیغام رسانی کرتے رہے۔

لیکن آخر میں امریکی اور ایرانی وفد نے ایک ساتھ میڈیا کا سامنا کیا اور مذاکرات کی پیش رفت کو مثبت قرار دیا۔ روم میں ہونے والے بات چیت اِسی کی دوسری کڑی ہے۔ یاد رہے، حسن روحانی کے نیوکلیئر مذاکرات کو مکمل ہونے میں دو سال لگے تھے، جس میں اُن کا دورۂ امریکا بھی شامل تھا، جس کے دوران اُنہوں نے اقوامِ متحدہ سے بھی خطاب کیا تھا۔

اگرچہ صدر ٹرمپ کی خواہش ہے کہ وہ ایران کی کم زور پوزیشن سے فائدہ اُٹھا کر جَلد کوئی معاہدہ کر لیں تاکہ ایرانی نیوکلیئر پروگرام محدود ہوجائے، لیکن ایران چاہتا ہے کہ اس کی مشرقِ وسطیٰ میں ساکھ قائم رہے اور اسے معاشی ریلیف بھی ملے۔ روس، چین اور یورپی طاقتیں ایران کے نیوکلیئر کردار کو پہلے معاہدے ہی میں مسترد کرچُکی ہیں، اِس لیے ایک طرح سے تمام بڑی طاقتیں اِس معاملے پر متفّق ہیں۔ تاہم، ایران کی مشرقِ وسطیٰ میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر موجودگی پر شاید کسی کو اعتراض نہ ہو۔

پاکستان کے ایران کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں، گو کہ گزشتہ دنوں اس میں اونچ نیچ بھی آتی رہی، جس کی بڑی وجہ بھارت رہا، جو ایران کا قریبی دوست ہے۔ وہ ایران کے سستے تیل کا بڑا خریدار بھی ہے، جس سے ایرانی معیشت کو سہارا ملتا ہے۔ بھارت نے ایرانی پورٹ، چا بہار اور اُسے باقی علاقوں سے ملانے والی شاہ راہیں تعمیر کیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کشمیر کے معاملے پر ایران ہمیشہ پاکستان کے مؤقف کی حمایت کرتا رہا ہے۔اگر ایران سے امریکا کا معاہدہ ہو جاتا ہے، تو وہ تمام پابندیوں سے آزاد ہوجائے گا۔

چا بہار پورٹ جو گوادر کے مقابل ہے، اس میں بھارت کا عمل دخل بڑھ جائے گا اور وہ ایرانی تیل بڑے پیمانے پر خرید سکے گا۔بھارت کی ایران، امریکا اور روس تینوں سے قریبی دوستی ہے۔ اطلاعات کے مطابق صدر ٹرمپ سے بات چیت میں روسی صدر نے واضح طور پر بتا دیا تھا کہ اگر ایران پر بم باری ہوئی، تو روس، ایران کا ساتھ دے گا، لیکن یہ ساتھ کس شکل میں ہوگا، اس کے متعلق کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی، کیوں کہ شام میں جب بشار کو شکست ہوئی، تو ایران کے ساتھ روس بھی وہاں سے خاموشی سے نکل گیا تھا بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں اپنا واحد فوجی اڈّا بھی چھوڑ دیا تھا۔لیکن اگر ایران، امریکا معاہدہ نہیں ہوتا، تو پھر بھارت کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی کہ وہ کس کا ساتھ دے گا۔

ٹرمپ کے پہلے دَور میں ایران پر عاید کردہ پابندیوں کے بعد بھارت کو خلیجی ممالک اور عراق سے تیل لینا پڑا، جب کہ چابہار پورٹ پر تعمیراتی کام بھی سُست پڑ گیا تھا۔ امریکا، ایران مذاکرات پیچیدہ ہیں اور کسی معاہدے پر پہنچنے میں انہیں کتنا وقت لگے گا، ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔ یوکرین اور غزہ کی جنگ سے متعلق دعویٰ کیا گیا تھا کہ چوبیس گھنٹے میں ختم ہوجائیں گی، لیکن تین ماہ بعد بھی ایسے کوئی آثار نہیں۔

گزشتہ دنوں امریکی یونی ورسٹیز بھی خبروں میں رہیں، جنہیں ٹرمپ نے طرح طرح کی پابندیوں میں جکڑنے کی کوشش کی۔ ہارورڈ یونی ورسٹی کے، جو علم و تحقیق کے میدان میں نمایاں مقام کی حامل ہے، دو بلین ڈالرز کے فنڈز صدر ٹرمپ کے حکم پر منجمد کردیئے گئے۔ ہارورڈ سے انتظامیہ نے دس مطالبات کیے تھے، جنہیں یونی ورسٹی نے ماننے سے انکار کردیا۔ ان میں بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ ایسے غیر مُلکی طلبہ کا ریکارڈ حکومت کے حوالے کیا جائے، جو کسی بھی قسم کی احتجاجی سیاست میں حصّہ لیتے رہے ہوں۔

خاص طور پر ایسے طلبہ کی تفصیلات مانگی گئیں، جنھوں نے اسرائیل مخالف مظاہرے کیے یا سوشل میڈیا پر سرگرم رہے۔ اِس سے قبل کولمبیا یونی ورسٹی کے چار سو ملین ڈالرز کے فنڈز روک دیئے گئے تھے، جس پر یونی ورسٹی نے حکومت کے تمام مطالبات تسلیم کرلیے۔ اب وہاں ایسا نقاب یا ماسک پہننے پر پابندی ہے، جس سے چہرہ نظر نہ آئے۔ تقریباً تمام امریکی یونی ورسٹیز کو ایک سرکلر کے ذریعے بتا دیا گیا کہ یہ امریکی پالیسی ہے۔

سیکریٹری آف اسٹیٹ، مارکو روبیو نے فاکس ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکی ویزا، طالبِ علم ہو یا کوئی اور، کسی درخواست گزار کا حق نہیں، بلکہ یہ ایک اعزاز ہے، جو امریکا اُنھیں دیتا ہے تاکہ وہ مہمان بن کر تعلیم حاصل کر سکیں۔ کسی بھی قسم کی غیر نصابی سرگرمی میں حصّہ لینا اُن کے ویزے کو منسوخ اور تعلیمی سلسلے کو منقطع کردے گا۔ گویا، امریکی پالیسی کے خلاف جانے کا مطلب ڈی پورٹیشن ہے، یعنی امریکا سے بے دخلی۔ 

خواہ وہ عمل آزادیٔ اظہارِ رائے ہی کے نام پر کیوں نہ کیا گیا ہو۔ اِس صُورتِ حال سے پاکستانی طلبہ اور دیگر ویزا ہولڈز میں بھی خوف پایا جاتا ہے۔ اِن کے لیے اچھا مشورہ یہی ہوسکتا ہے کہ وہ امریکی پالیسیز پر عمل پیرا ہوں۔ اُنھیں وہاں رہتے ہوئے کسی ایسے عمل کا حصّہ نہیں بننا چاہیے، جو امریکی پالیسی کے منافی ہو۔

سنڈے میگزین سے مزید