• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت کیساتھ چار روزہ جنگ کے دوران ہم سرخرو ہوئے اور اس کامیابی کا کریڈٹ تینوں مسلح افواج اور سیاسی قیادت کو جاتا ہے مگر ایک شخصیت کو ملک و قوم پر ترجیح دینے والوں نے جس شرانگیزی کا مظاہرہ کیا، اسے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ پہلے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ سرحدوں پر تنائو نورا کشتی ہے، بھارت حملہ نہیں کریگا۔ کمپنی کی مشہوری کیلئے پاک بھارت کشیدگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔ جب جنگ کے سائے منڈلاتے دکھائی دیئے تو کہا جانے لگا، ہم فوج کیساتھ کھڑے نہیں ہونگے، خود جاکر بھارت سے لڑو۔ پانچویں پشت کی دوغلی ابلاغی جنگ کیلئے تیار کئے گئے وہ سپاہی جو اب باغیوں کا روپ دھار چکے ہیں، انہوں نے تمسخر اُڑانا شروع کر دیا۔ مہاتما کے پیروکار ایک بزعم خود دانشور نے کہا ’’ایک رافیل جنگی جہاز کی قیمت پاکستان کے پورے دفاعی بجٹ کے برابر ہے۔ تم لوگوں کی اوقات کیا ہے؟ـ‘‘ موصوف فرط جذبات میں کچھ زیادہ کہہ گئے یا خود انہیں بھی معلوم نہیں کہ جنوں میں کیا کیا بک رہے تھے۔ بھارت نے 2016ء میں فرانس سے 36رافیل طیارے خریدنے کیلئے 8.78بلین ڈالر کی ڈیل کی یعنی ایک رافیل جنگی جہاز تقریباً ً232ملین ڈالر کا ہوا جبکہ پاکستان کا دفاعی بجٹ تقریباً7.64بلین ڈالر ہے۔ جہاں تک اوقات کا تعلق ہے تو قیدی نمبر 804 کی تقلید میں ملک دشمنی کے سب حدیں عبور کرنیوالوں کو اپنے ممدوح مودی سے یہ سوال کرنا چاہئے کہ اتنی بڑی فوج،جدید، مہنگے اڑن کھٹولوں اور مغربی ٹیکنالوجی کے باوجود بھارت کو مات کیوں ہوئی؟77.4 بلین ڈالر کے دفاعی بجٹ کے باوجود بھارتی فوج کو ہزیمت، شرمندگی اور خجالت کا سامنا کیوں کرنا پڑا؟ بہرحال جب جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور 10مئی2025ء کی صبح پاکستان کی فتح مبین کا سورج طلوع ہوتا دکھائی دیا گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ان جعلی انقلابیوں نے پینترا بدل کر یہ موقف اختیار کرلیا کہ ہمارے دم قدم سے یہ کامیابی ملی ہے اگر ڈیجیٹل میڈیا پر ہم بھارت کے دانت کھٹے نہ کرتے تو انکے بس کی بات نہیں تھی۔ اگر بات ہتھیلی پر سرسوں جمانے تک محدود رہتی تو شاید نظر انداز کر دی جاتی کہ ناکامی یتیم ہوتی ہے اور کامیابی کے کئی باپ ہوتے ہیں مگر ان فتنہ گروں نے ایک اور باریک واردات ڈالنا شروع کردی کہ ’’ٹکر کی ایئرفورس باقی کہانیاں بہت ہیں۔‘‘ یعنی کامیابی کا سہرا فضائیہ کے سر باندھ کر بری اور بحری افواج ہی نہیں بلکہ سیاسی قیادت کو بھی مائنس کر دیا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ دور میں ہونیوالی لڑائیوں میں فضائیہ کو ہراول دستے کی حیثیت حاصل ہے لیکن قائدانہ کردار آج بھی بری فوج کے پاس ہے۔ ایئر ڈیفنس سسٹم کا کنٹرول آرمی نے سنبھال رکھا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپریشن بنیان مرصوص ایک ایسی مربوط اور مشترکہ جنگی حکمت عملی کے تحت ترتیب دیا گیا جس میں تینوں مسلح افواج نے بھرپور کردار ادا کیا۔ اگر بری، بحری اور فضائی افواج میں مثالی تعاون کا مظاہرہ نہ کیا جاتا تو اپنے سے تین گنا بڑے دشمن کو شکست نہیں دی جاسکتی تھی۔ لیکن کینہ و بغض کا شکار یہ طفلان انقلاب ایسا پروپیگنڈا کرکے فوج میں پھوٹ ڈالنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ میں نے پہلی بار یہ منظر دیکھا کہ افواج پاکستان کے محکمہ تعلقات عامہ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے دائیں طرف وائس ایڈمرل رب نواز اور بائیں جانب ایئر وائس مارشل اورنگ زیب کو ساتھ بٹھا کر بریفنگ دی ورنہ اس سے پہلے ڈی جی آئی ایس پی آر اکیلے ہی پریس کانفرنس کیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ 27فروری 2019ء کو جب بھارت کے دو جنگی جہاز تباہ کرکے پائلٹ ابھینندن ورتمان کو گرفتار کیا گیا تب بھی ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے ہی بریفنگ دی تھی۔اسی طرح نونہالانِ انقلاب نیم دلی سے افواج پاکستان کی کامیابی کو تسلیم کرتے ہوئے سیاسی قیادت کا مذاق اُڑا رہے ہیں۔ کبھی وزیر دفاع خواجہ آصف پر طنز کیا جاتا ہے تو کبھی وزیراعظم شہباز شریف پر پھبتیاں کسی جاتی ہیں۔ میں بھی شہبازشریف صاحب پر ماضی میں کڑی تنقید کرتا رہا ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت سے محاذ آرائی کے دوران انہوں نے بہترین قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ افواج پاکستان کی طرف سے بھارت کیخلاف جو کارروائیاں کی جارہی تھیں، سفارتی محاذ پر انکے تناظر میں عالمی دبائو کا سامنا سیاسی قیادت کی طرف سے ہی کیا جا رہا تھا۔ اس بات پر یا وہ گوئی کی جارہی ہے کہ جب ملک حالت جنگ میں تھا تو شہبازشریف صاحب تیراکی کررہے تھے۔ یہی تو قیادت کا امتحان ہوتا ہے کہ مشکل ترین حالات میں انکے اعصاب مضبوط رہیں اور گھبراہٹ کا شکار ہوئے بغیر معمولات کو جاری رکھیں۔ اگر آدھی رات یا صبح کے وقت سربراہ حکومت معمول کے مطابق سوئمنگ کر رہے تھے تو اسکا مطلب ہے ملکی دفاع مضبوط ہاتھوں میں تھا اور کسی قسم کی ہیجانی کیفیت نہیں تھی۔

اس دوران کسی چڑیا کے توسط سے یہ بے پر کی بھی اُڑائی گئی کہ پاک بھارت جنگ کے دوران قیدی نمبر 804 کو جیل جاکر یوں بریفنگ دی گئی جیسے کسی وزیراعظم کو صورتحال سے آگاہ کیا جاتا ہے اور اسکے بعد انہوں نے سوشل میڈیا کے محاذ پر برسرپیکار طفلان انقلاب کو پاکستان کے حق میں بات کرنے کا فرمان جاری کیا۔ بالفرض محال یہ تسلیم کرلیا جائے کہ ملاقات خفیہ تھی تو اعلامیہ کب جاری ہوا؟ اور اس پر عملدرآمد کی نوبت کب آئی ؟ سچ یہ ہے کہ ایسی کوئی بریفنگ نہیں دی گئی، البتہ فوج نہیں بلکہ حکومت کی طرف سے انہیں یہ پیغام ضرور دیا گیا تھا کہ انکا سوشل میڈیا زہر اُگل رہا ہے مگر انہوں نے اپنے گھوڑوں کی لگامیں کھینچنے سے انکار کردیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ کے نتیجے میں قیدی نمبر 804پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ وہ غیر متعلق ہوگئے ہیں۔ غیر ملکی ترسیلات زر پاکستان نہ بھیجنے کی اپیل پہلے ہی ناکام ہوگئی تھی اور اب ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود انکے ہم نوا پاک بھارت جنگ کے دوران تلبیس اطلاعات کی مہم میں کوئی خاطر خواہ کردار ادا نہیں کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ اب انکی سیاسی جدوجہد کو نئی سانسیں فراہم کرنے کیلئے لندن سے انکے بیٹوں کو میدان میں اُتارا گیا ہے۔

تازہ ترین